تعلیم و تزکیہ کی اہمیت |
ہم نوٹ : |
|
کےمظاہر ہیں،جہاں کتاب کے معنیٰ بتائے جاتے ہیں، تفسیر پڑھائی جاتی ہے۔ علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: یُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ کی دو تفسیریں ہیں: اَیْ یُفَھِّمُھُمْ اَلْفَاظَہٗ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قرآنِ پاک کے الفاظ سکھاتے ہیں، اس کے معانی بتاتے ہیں۔ اس تفسیر کے مظاہر مدارسِ علمیہ ہیں، جہاں قرآن کے معانی و تفسیر پڑھائی جاتی ہے،اور یُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ کی دوسری تفسیر ہے وَ یُبَیِّنُ لَھُمْ کَیْفِیَّۃَ اَدَاءِہٖ 18؎ اور الفاظ قرآنِ پاک کی کیفیتِ ادا بھی سکھاتے ہیں۔ اس تفسیر سے پتا چلا کہ جہاں قرأت و تجوید کے مکاتب ہیں وہ اس آیت کا مظہر ہیں۔ تعلیم کتاب اور حکمت کا ربط تعلیم کتاب کے ساتھ حکمت کو بیان فرماکر یہ تعلیم دے دی کہ معلم کو حکیم ہونا چاہیے، یعنی معلم ایسا ہو جو کتاب کو حکمت کے ساتھ پڑھائے، یعنی لوگوں کو فہمِ دین کی تعلیم دے ۔اور حکمت کی پانچ تفسیریں ہیں: پہلی تفسیر حَقَائِقُ الْکِتَابِ وَدَقَائِقُہٗ ،وہ معلم کتاب اللہ کے حقائق و اسرار و معارف اور باریکیاں سمجھائے۔ دوسری تفسیر طَرِیْقُ السُّنَّۃِ ،وہ معلم ایسا ہو جو سنت کا طریقہ سکھائے۔ سنت کا ہر طریقہ حکمت ہے، جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے پوری تفسیرِ قرآن ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی قرآن کی عملی تفسیر ہے۔ تیسری تفسیر اَلْفِقْہُ فِی الدِّیْنِ ، دین کی سمجھ پیدا ہوجائے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے _____________________________________________ 18؎روح المعانی:387/1،البقرۃ(129)،داراحیاء التراث، بیروت