تعلیم و تزکیہ کی اہمیت |
ہم نوٹ : |
|
برکت سے اُن کا مقامِ بُعد مقامِ قرب سے تبدیل ہوگیا۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ کلمات سے مراد رَبَّنَا ظَلَمْنَاۤ اَنْفُسَنَا... الخ 5؎ ہیں یہ رَبَّنَا ظَلَمْنَاۤ اَنْفُسَنَا ایسا قبول ہوا کہ اُن کی آدمیت کےسر پہ تاجِ نبوت اللہ تعالیٰ نے رکھ دیا۔ آج بھی اگر ہم سب دل سے رَبَّنَا ظَلَمْنَا کہہ لیں، توہماری غلامی کےسر پر اللہ تعالیٰ نبوت کا تاج تو نہیں،کیوں کہ دروازۂ نبوت تو بند ہوچکا ہے لیکن اپنی ولایت اور دوستی کا تاج رکھ دیں گے بشرطیکہ رَبَّنَا ظَلَمْنَا مالہ وما علیہ کے ساتھ ہو۔ دل سے توبہ کرے، اور توبہ کے کیا معنیٰ ہیں؟ توبہ نام ہے ندامتِ قلب کا کہ دل نادم ہوجائے اور ماضی کے گناہوں کی تلافی استغفار سے کرلے اور مستقبل کے لیے عزم تقویٰ کرلے کہ اللہ آپ کو کبھی ناراض نہیں کروں گا، تو یہ توبہ ہے۔ یہ نہیں کہ زبانی توبہ توبہ کیے جارہے ہیں اور عورتوں کو دیکھے بھی جارہے ہیں۔ سینما وی سی آر دیکھ رہے ہیں اور توبہ توبہ بھی کررہے ہیں۔ ایک صاحب میرے ساتھ چل رہے تھے۔ اُنہوں نے کہا کہ مولانا! توبہ توبہ! کیا بے حیائی کا زمانہ آگیا ہے لَا حَوْلَ وَلَاقُوَّۃَ اِلَّا بِاللہْ دیکھے بھی جارہے ہیں۔ بتائیے یہ نظر حرام ہے یا نہیں؟ ایسا لاحول تو خود لاحول پڑھنےوالے پر لاحول پڑھتا ہے۔ اس لیے شیخ محی الدین ابو زکریا نووی رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں کہ توبہ کی قبولیت کے لیے چار شرطیں ہیں:پہلی شرط اَنْ یَّقْلَعَ عَنِ الْمَعْصِیَۃِ یعنی معصیت سے دور ہوجائے۔ قَلَعَ یَقْلَعُ کےمعنیٰ ہیں دور ہونا۔ایک بات یہاں یاد آگئی وَمَا قَلٰی کے معنیٰ پر۔حضرت لوط علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ اِنِّیۡ لِعَمَلِکُمۡ مِّنَ الۡقَالِیۡنَ 6؎ اے بدمعاشو! لڑکوں کے ساتھ تمہاری بدفعلیوں کے اس عمل سے میں دشمنی اور بغض رکھتا ہوں۔ جب میں پڑھ رہا تھا تو میرے امتحان میں یہ سوال آیا کہ قالین کے معنیٰ لکھو۔ اب بتائیے اگر اللہ تعالیٰ کا فضل نہ ہوتا تو جس قالین پر ہم بیٹھے ہیں اسی قالین کو میں لکھ دیتا کہ قالین ایک موٹی سی بیٹھنے کی چیز ہوتی ہے۔لیکن اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ مالک کے کرم سے اختر پاس ہوگیا۔ قالین کے معنیٰ لکھ دیا، دشمنی کرنے والے ۔اصل میں قَالُوْنَ اسم فاعل ہے حالتِ رفعی میں لیکن مِنْ حرف جار کی وجہ سے حالتِ جری میں قَالِیْنَ بن گیا۔ _____________________________________________ 5؎الاعراف :23 6؎الشعراۤء :168