تعلیم و تزکیہ کی اہمیت |
ہم نوٹ : |
|
ہے۔ میں ضعیف ہوں، اتنی توجہ دینی چاہیے کہ دوسرا برداشت بھی تو کرسکے، اس لیے عرض کرتا ہوں کہ میری گزارش کو آنکھ کھولے ہوئے سنو، آنکھ بند کرنے سے یا تو آپ کو نیند آجائے گی یا پھر مجھے مزہ نہیں آئے گا، مجھے کچھ مزہ آنکھوں سے آتا ہے۔ خواجہ صاحب نے جگر مراد آبادی سے کہا تھا ؎مے کشو یہ تو مے کشی رندی ہے مے کشی نہیں آنکھوں سے تم نے پی نہیں آنکھوں کی تم نے پی نہیں یعنی اللہ والوں کو آنکھوں سے ملتی ہے اور وہ آنکھوں کی پلاتے ہیں۔ میں آپ کو وہ واقعہ سناتا ہوں۔ جب حضرت مفتی صاحب نے حضرت حکیم الامت رحمۃاللہ علیہ سےعرض کیا کہ بیعت کرلیجیے۔ یہ بانئ جامعہ کی باتیں سنارہا ہوں، اگرچہ آپ نے پہلے بھی سُنی ہوں گی، مگر تکرار میں مزہ آتاہے۔محبوب کی باتوں کا تکرار ہونا چاہیے یا نہیں؟ حدیثِ بخاری شریف کی عاشقانہ تشریح اسی لیے بخاری شریف کی جو پہلی حدیث ہے اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ تو اللہ تعالیٰ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فَمَنْ کَانَتْ ھِجْرَتُہٗ اِلَی اللہِ وَرَسُوْلِہٖ میں فَھِجْرَتُہٗ اِلَی اللہِ وَرَسُوْلِہٖ 11؎ فرمایا،حالاں کہ مرجع اور ضمائر قریب تھے یعنی فَھِجْرَتُہٗ اِلَیْھِمَا نہیں فرمایا اور اس قریب مرجع کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ اور رسول کا دوبارہ نام لیا۔ سوال یہ ہے کہ یہ دوبارہ نام کیوں لیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف ضمیر پر اکتفا کیوں نہیں کیا؟ محدثین اس کی وجہ بیان فرماتے ہیں کہ جانِ مصطفوی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا عاشقانہ ذوق ظاہر فرمایا اِسْتِلْذَاذًا بِتَکْرِیْرِ اسْمِھِمَا 12؎یعنی جانِ نبوت نے اپنی لسانِ نبوت سے دوبارہ اللہ اور رسول کا نام لے کر مزہ حاصل کیا، یہاں اِسْتِلْذَاذًا مفعول لہ ٗبیان ہورہا ہے،یہ متن اور یہ شرح دلالت کرتی ہے کہ دین نام ہے عشق و محبت کا۔ اگر روح کو اللہ کی _____________________________________________ 11؎صحیح البخاری:989/2(6730)، باب النیۃ فی الایمان، المکتبۃ المظہریۃ 12؎فتح الباری:15/1، کتاب بدء الوحی،دارالمعرفۃ،بیروت