تعلیم و تزکیہ کی اہمیت |
ہم نوٹ : |
|
محبت تو اے دل بڑی چیز ہے یہ کیا کم ہے جو اس کی حسرت ملے اے اللہ! اگر آپ کی محبت کےغم کی دولت مل جائے تو دونوں جہاں کے غموں سے مجھے نجات مل جائے، اور اگر یہی غم مل جائے کہ آہ! مجھے اللہ کا غم نہیں ملا تو سمجھ لو اُسے بہت کچھ مل گیا، اگر یہ تمنا مل جائے تو سمجھ لو وہ بہت کچھ پاگیا۔ علامہ سید سلیمان ندوی رحمۃاللہ علیہ فرماتے تھے کہ کسی شخص کو اپنی علمی قابلیت پر، مال و دولت پر، حُسن و جمال پر، اپنی صحت پر غرض کسی نعمت پر ناز کرنا جائز نہیں،کیوں کہ قیمت تو قیامت کے دن اللہ لگائے گا۔ اگر کوئی غلام اپنی قیمت خود لگاتا ہے تو بے وقوف ہے، بین الاقوامی بے وقوف ہے، وہ غلام جو اپنی قیمت خود لگائے جبکہ مالک کی طرف سے اُس کی قیمت کا ابھی پتا نہیں، میدانِ محشر میں اُس کی قیمت کا پتا چلے گا، لہٰذا قیامت سے پہلے کیا اپنی قیمت لگاتے ہو؟علامہ سید سلیمان ندوی رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں بہت آسان اور سادہ الفاظ میں ؎ہم ایسے رہے یا کہ ویسے رہے وہاں دیکھنا ہے کہ کیسے رہے بتاؤ بھائی! اس میں کوئی مشکل لغت ہے؟ اور دنیا کے ٹھاٹھ باٹ کے بارے میں فرماتے ہیں ؎حیاتِ دو روزہ کا کیا عیش و غم مسافر رہے جیسے تیسے رہے غم پروف دل اب اختر کا شعر سنیے ؎زندگی پُر کیف پائی گرچہ دل پُر غم رہا اُن کے غم کے فیض سے میں غم میں بھی بے غم رہا سوئٹزرلینڈ کی گھڑی واٹر پروف آتی ہے، اگر پانی میں ڈال دو تو پانی اندر نہیں گھستا۔ کیا اللہ تعالیٰ اپنے عاشقوں کے قلوب کو غم پروف نہیں کرسکتا کہ دل میں اللہ کا غم اور درد محبت ہو اور دنیا کے