تعلیم و تزکیہ کی اہمیت |
ہم نوٹ : |
|
علیہ نے اس آیت کے ترجمہ میں بھی اس کی رعایت کی، اَیْ فِیْ وَقْتِ رَحْمَۃِ رَبِّیْ 23؎ یعنی جب ہمارے رب کی رحمت کا سایہ ہوگا تب ہی ہم اس ظالم نفس سے بچ سکتے ہیں، فِیْ سے ظرفیہ بنایا، وَقْت سے زمانیہ بنایا اور رَحِمَ سے مصدربنایا، لہٰذا یہ مَا ظرفیہ زمانیہ اور مصدریہ بن گیا۔ جب تک اللہ کی رحمت کا سایہ ہو یہ نفس ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا ،اور اللہ کی رحمت کا یہ سایہ کب ملتا ہے؟ یَاحَیُّ یَاقَیُّوْمُ بِرَحْمَتِکَ اَسْتَغِیْثُ اَصْلِحْ لِیْ شَاْنِیْ کُلَّہٗ وَلَا تَکِلْنِیْ اِلٰی نَفْسِیْ طَرْفَۃَ عَیْنٍ 24؎ کی دعا سے ملتا ہے، جس کا ترجمہ ہے کہ اے زندہ حقیقی! اے سنبھالنے والے! میں آپ کی رحمت سے فریاد کرتا ہوں کہ میری ہر حالت کو درست فرمادیجیے اور پلک جھپکنے بھر بھی مجھے میرے نفس کے حوالے نہ کیجیے۔اور پھر اہل اللہ کی صحبت ہو، کیوں کہ صحبت اہل اللہ میں خاصیت ہے کہ لَا یَشْقٰی بِھِمْ جَلِیْسُھُمْ 25؎ ان کے پاس کا بیٹھنے والا شقی یعنی بدبخت نہیں رہ سکتا، اور جب شقاوت نہیں ہوگی تو رحمت مل جائے گی، شقاوت کے ساتھ لعنت لازم ہے۔ علامہ راغب اصفہانی رحمۃاللہ علیہ نے فرمایا کہ لعنت کے معنیٰ ہیں خدا کی رحمت سے دُوری اور برکت کے معنیٰ کوئی پوچھے تو بتادینا کہ برکت کے معنیٰ ہیں فیضانِ رحمتِ الٰہیہ۔ اسمائے۱عظم عَزِیْزٌ وَ حَکِیْمٌ کا تزکیۂ نفس سے ربط بس اب تقریر ختم ہورہی ہے۔ عَزِیْزٌ کے معنیٰ کیا ہیں؟ اَلْقَادِرُ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ وَّلَا یُعْجِزُہٗ شَیْءٌ فِی اسْتِعْمَالِ قُدْرَتِہٖ یعنی جو ہر شیٔ پر قادر ہو اور جس کے استعمالِ قدرت میں کوئی رکاوٹ نہ ڈال سکے، مثلاً سارا عالَم مل کر کہے کہ میں اس کو ولی اللہ نہیں ہونے دوں گا، مگر اللہ تعالیٰ ارادہ فرمالیں کہ مجھے اپنے اس بندے کا تزکیہ کرنا ہے، اس کو ولی اللہ بنانا ہے، تو اللہ کے ارادے پر مراد کا تخلف محال ہے اور مراد حاصل ہونالازم ہے، لہٰذا حضرت ابراہیم علیہ السلام نےاس دُعا کےفوراً بعد _____________________________________________ 23؎روح المعانی:13/2، یوسف (53)،داراحیاء التراث، بیروت 24؎کنزالعمال:139/2،(3498)، الباب الثامن :الدعاء،الفصل الخامس :الادعیۃ المؤقتۃ ،الفرع الثالث:ادعیۃ الصباح والمساء،مؤسسۃ الرسالۃ 25؎صحیح البخاری: 948/2 (6443)،باب فضل ذکراللہ تعالٰی، المکتبۃ المظہریۃ