تعلیم و تزکیہ کی اہمیت |
ہم نوٹ : |
|
ایک مولانا صاحب نے مجھ سے لندن میں کہا کہ تمہارا بیان بڑا درد بھرا تھا، تو میں نے کہا کہ اس پر میرا شعر سُن لو جو ابھی ابھی وارد ہوا ہے ؎اس طرح دردِ دل بھی تھا میرے بیاں کے ساتھ جیسے کہ میرا دل بھی تھا میری زباں کے ساتھ اور بنگلہ دیش کا ایک تازہ شعرسن لو ؎اس درجہ حلاوت ہے مرے طرزِ بیاں میں خود میری زباں اپنی زباں چوس رہی ہے ذرا غور سے سننا، نہیں تو کہو گے کہ دوسرے کی زبان چوس رہے تھے ؎خود میری زباں اپنی زباں چوس رہی ہے سائیں تو کل شاہ تھانہ بھون میں ایک بزرگ تھے۔ اُنہوں نے حکیم الامت تھانوی رحمۃاللہ علیہ سے کہا تھا کہ مولوی جی! جب میں اللہ تعالیٰ کا نام لوں ہوں تو میرا منہ میٹھا ہوجاوے ہے۔ پھر فرمایا مولوی جی اللہ کی قسم! منہ میٹھا ہوجاوے ہے۔ یہ مظفر نگر کی بولی ہے۔ تو اللہ تعالیٰ اپنے نام میں بے شمار حلاوت دیتے ہیں۔ وہ گنے میں رس پیدا کرتا ہے اور ساری کائنات کو شکر دیتا ہے۔ تو جو سارے عالم کو شکر دیتا ہے وہ خود کتنا میٹھا ہوگا! اس کے نام میں کتنی مٹھاس ہوگی، جس کو جلال الدین رحمۃاللہ علیہ نے سمجھایا کہ ؎از لبِ یارم شکر را چہ خبر فرماتے ہیں کہ میرے اللہ کے نام کی لذت اور مٹھاس کو شکر ظالم کیا جانے! شکر تو مخلوق ہے، میرااللہ خالقِ شکر کتنا میٹھا ہوگا۔ اختر عرض کرتا ہے ؎ارے یارو جو خالق ہو شکر کا جمالِ شمس کا نورِ قمر کا نہ لذّت پوچھ پھر ذکرِ خدا کی حلاوت نامِ پاکِ کبریا کی