ہوئے ہیں۔ کون؟ حضرت عبداللہ ابنِ عباس رضی اللہ عنہما، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا کے بیٹے۔ فرمایا: اے عبداللہ ابنِ عباس! تم میرے نبی کے چچا کے بیٹے ہو، تمہارے اس طرح بیٹھے رہنے سے مجھے تکلیف ہوتی ہے، تم دروازہ کھٹکھٹادیا کرو کہ میں آگیا ہوں تو میں جلدی نکل آیا کروں گا۔ عرض کیا کہ ایسا نہیں ہوسکتا، میں اللہ کے حکم کی نافرمانی نہیں کرسکتا۔ اللہ تعالیٰ نے سورۂ حجرات میں نبی کے لیے جو آداب نازل فرمائے ہیں وہی آداب علمائے ربانیّین کے لیے ہیں، لہٰذا میں وہی ادب کروں گا اور دروازہ نہیں کھٹکھٹاؤں گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
اِنَّ الَّذِیۡنَ یُنَادُوۡنَکَ مِنۡ وَّرَآءِ الۡحُجُرٰتِ اَکۡثَرُہُمۡ لَا یَعۡقِلُوۡنَ13؎
لہٰذا ہم بے عقلی کاکام نہیں کریں گے کہ دروازے کے باہر سے آپ کو پکارلیں۔وَ لَوۡ اَنَّہُمۡ صَبَرُوۡا حَتّٰی تَخۡرُجَ اِلَیۡہِمۡ لَکَانَ خَیۡرًا لَّہُمۡ14؎ پس میں اس صبر میں آنا چاہتا ہوں جس کی اللہ تعالیٰ نے تعریف کی ہے کہ اگر یہ صبر کرتے، انتظار کرتے تو یہ ان کے لیے بہتر ہوتا۔ پس میں اس خیر کو کیسے چھوڑدوں؟ میں اسی پر عمل کروں گا۔ آپ اللہ کے دین کے عالم ہیں، نائبِ رسول ہیں۔ آپ کا میں وہی ادب کروں گا جو سورۂ حجرات میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہے۔ علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:قَرَاْتُ ھٰذِہِ الْقِصَّۃَ فِی الصِّغَرِ میں نے اس قصے کو بچپن میں پڑھا تھا، لیکن اس کے بعد تمام عمر میں نے اپنے اُستادوں کے ساتھ یہی ادب کیا یعنی کبھی دروازہ نہیں کھٹکھٹایا کہ استاد جی!نکلو اُخْرُجْ یَا اُسْتَاذْ۔میں عرض کرتا ہوں کہ بزرگوں کا ادب، اللہ والوں کا ادب آپ کو بعض وقت اس مقام پر پہنچادے گا کہ سو برس کی تہجد سے آپ اس مقام پر نہیں پہنچ سکتے۔ یہ قرآن کی دلیل پیش کررہا ہوں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جن بندوں نے میرے نبی کا ادب کیا، آہستہ آہستہ بولے، ایسے نہیں بولے جیسے آپس میں ایک دوسرے سے بولتے ہیں یا زور سے ہاہا کرکے ہنستے ہیں، تو اس ادب پر اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنی دوستی کے لیے منتخب فرمالیا۔ اسی طرح شیخ کے سامنے ایسی حرکتیں کرنا جیسے بے تکلف دوست آپس میں کرتے ہیں جائز نہیں ہے اور طریق کے آداب کے خلاف ہے اور شیخ کی بھی
_____________________________________________
13؎ الحجرات: 4
14؎ الحجرٰت: 5