آرامِ دو جہاں کا طریقۂ حصول
اَلْحَمْدُ لِلہ ِ وَکَفٰی وَسَلَامٌ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی، اَمَّابَعْدُ
فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
قَدۡ اَفۡلَحَ مَنۡ زَکّٰىہَاوَ قَدۡ خَابَ مَنۡ دَسّٰىہَا1؎
تزکیہ اور اس کا طریقہ
اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ جس نے اپنے نفس کا تزکیہ کرلیا، اپنی اصلاح کرلی وہ فلاح پاگیا۔ فلاح کے معنیٰ ہیں:
جَمِیْعُ خَیْرِ الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ 2؎
دنیا میں بھی آرام وچین سے رہے اور آخرت میں بھی آرام وچین سے رہے۔
دونوں جہاں کی کامیابی اور چین وآرام تزکیہ میں ہے اور تزکیہ خود سے نہیں ہوتا جب تک کسی مزکّی سے تعلق نہ ہو۔ تزکیہ فعل متعدی ہے جو اپنے فاعل پر تمام نہیں ہوتا۔ فعلِ لازم تو اپنے فاعل پر تمام ہوجاتا ہے جیسےجَاءَ زَیْدٌ۔ تو مجیئت زید کی زید پر تمام ہوگئی، لیکن اگر یہ کہا جائے کہ زید نے اپنا تزکیہ کرایا زَکّٰی زَیْدٌ تو تزکیہ زید کا زید پر تمام نہیں ہوگا، بلکہ زید کا تزکیہ کسی نے کیا مثلاً: خالد نے زید کا تزکیہ کیا تو مُزَکِّیْ الگ ہوتا ہے مُزَکّٰی الگ ہوتا ہے۔ تزکیہ میں ضرورت ہے شیخ کی اور حکیم الامت مجدد الملت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی نور اللہ مرقدہٗ فرماتے ہیں کہ کسی مرشد کامل سے اصلاح کرانا یعنی اصلاح کے لیے شیخ سے تعلق قائم کرنا اس کو میں
_____________________________________________
1؎ الشمس: 9 - 10
2؎ جلالین:28