گزارنے کے معنیٰ نکال لو۔ اپنی طرف سے قرآنِ پاک کی تفسیر کرنا جائز نہیں جب تک مفسرین کی تفسیروں کو نہ دیکھا جائے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے قرآن پاک کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سمجھا اور مفسرین صحابہ رضی اللہ عنہم کے اقوال پیش کرتے ہیں، تابعین کے اقوال پیش کرتے ہیں، ساتھ ساتھ محاوروں کا بھی لحاظ رکھتے ہیں، جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایااِنَّ الَّذِیۡنَ یَغُضُّوۡنَ اَصۡوَاتَہُمۡ عِنۡدَ رَسُوۡلِ اللہِ جو لوگ میرے نبی کے پاس اپنی آواز کو پست رکھتے ہیں یعنی میرے نبی کا ادب کرتے ہیں اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ امۡتَحَنَ اللہُ قُلُوۡبَہُمۡ لِلتَّقۡوٰی11؎ اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو اپنی محبت کے لیے، اپنی دوستی کے لیے منتخب کرلیا، چن لیا، خالص کرلیا۔ علماء اور مشایخ فرماتے ہیں کہ نبی کے ادب کا یہ انعام ملا۔ جہاد نہیں ہوا، گردن نہیں کٹی، خون نہیں بہا، کوئی تہجد، کوئی عمل، کسی صدقہ اور کسی عبادت کا تذکرہ نہیں، صرف نبی کے ادب پر یہ انعام نازل ہورہا ہے کہ جن لوگوں نے میرے نبی کا ادب کیا میں نے ان کے دلوں کو اپنی محبت، اپنی دوستی کے لیے منتخب کرلیا۔اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ امۡتَحَنَ اللہُ قُلُوۡبَہُمۡ لِلتَّقۡوٰی ۔
علمائے ربانیّین کے ادب پر استدلال
حضرت مفتی محمد شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ معارف القرآن میں لکھتے ہیں کہ سورۃ الحجرات میں جو ادب نبی کا بیان ہوا، وہی علمائے ربانیّین، اللہ والے عالموں کا بھی ہے۔ نائبین کا ادب وہی ہوتا ہے جو اصل کا ہوتا ہے۔ علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کے استدلال میں ایک روایت نقل کی کہ حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما حضرت اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ سے فنِ قرأت پڑھنے جایا کرتے تھے۔ حضرت اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ اتنے بڑے قاری تھے کہ سید القراء اُن کا لقب ہے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی ان کے شاگرد ہیں اور ان کے لیے اللہ نے وحی نازل کی کہ اے ہمارے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) آپ حضرت اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ کے پاس جائیے اور سورۂ بَیِّنَۃْ کی تلاوت کیجیے۔ کیوں؟ اس لیے کہ سورۂ بَیِّنَۃْ میں علمائےیہود کا تذکرہ ہے اور یہ علمائے یہود میں سے تھے۔
_____________________________________________
11؎ الحجرات: 3