بندے رہتے ہیں۔ اللہ والوں کی عزت کو تم کیا سمجھوگے اور ہم کیا سمجھیں گے۔بخاری کی روایت ہے کہ سو قتل کرنے والے کو حکم ہوا کہ نیکوں کی فلاں بستی میں جاکر توبہ کرو، لیکن وہ وہاں نہ پہنچ سکا، درمیان میں موت آگئی۔ رحمت کے فرشتوں اور عذاب کے فرشتوں میں اختلاف ہوگیا، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ زمین کی پیمایش کرلو، اگر اللہ والوں کی زمین قریب ہے تو جنت میں لے جاؤ ورنہ دوزخ میں لے جاؤ۔ ادھر پیمایش کا حکم دیا اور اُدھر اللہ تعالیٰ نے اللہ والوں کی زمین کو قریب کردیا، حالاں کہ وہ دور تھی اور گناہوں کی بستی کو دور کردیا اور اس کی بخشش ہوگئی؎
حسن کا انتظام ہوتا ہے
عشق کا یوں ہی نام ہوتا ہے
تھوڑا سا عشق تو دکھاؤ، اللہ تعالیٰ خود ہی سارا کام بنادیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اللہ والوں کی مٹی میں یہ اثر رکھ دیا کہ اس کی برکت سے مغفرت ہوگئی، اس لیے خود بھی دُعا کرو اور اللہ والوں سے بھی دُعا کراؤ۔ روزانہ دو رکعات صلوٰۃِ توبہ پڑھ کر کہو کہ اے خدا! جب سے بالغ ہوا ہوں میرے تمام گناہ، جو آپ کے حقوق ہیں ان کو معاف فرمادیجیے اور اگر مخلوق کے حقوق ذمہ ہوں تو وہ ادا کریں اور اہلِ حقوق سے معافی مانگ لیں اور جن کا یاد نہ ہو یا جن تک پہنچنا ممکن نہ ہو، مثلاً: ان کا پتا معلوم نہیں تو روزانہ تینوں قُلۡ پڑھ کر ان کو بخش دیں۔
کفّارۂ غیبت
اور جن کے بارے میں آپ کو یقین ہے کہ میں نے فلاں فلاں کی غیبت کی ہے اور ان کو میری غیبت کرنے کی اطلاع بھی ہوگئی ہے تو اس سے معافی مانگیں۔ غیبت کی معافی جب واجب ہوتی ہے جب اس کو اطلاع بھی ہوجائے جس کی غیبت کی ہے۔ اگر اس کو خبر نہیں تو اس سے معافی مانگنا واجب نہیں، آپ اس کو ثواب بخش دیں اور جس مجلس میں غیبت کی ہے اس میں تردید کردیں کہ فلاں کی جو میں نے بُرائی کی وہ میری حماقت اور نادانی تھی۔ حضرت حکیم الامت تھانوی نور اللہ مرقدہٗ فرماتے ہیں کہ غیبت کی معافی مانگنا تب واجب ہے جب اس کو پتا چل جائے، جب اس کو خبر ہی نہیں پہنچی تو خواہ مخواہ کیوں اس کا دل خراب کرنے جارہے