ہے کہ اس سے اس کا بیٹا چھین لے؟ ایک گھونسہ لگائے گا جبڑا پھاڑدے گا۔ جبڑا جانتے ہو کس کو کہتے ہیں؟ منہ کا وہ حصہ جہاں دانت ہیں جبڑا کہلاتا ہے۔ اب ایک قصہ یاد آگیا، سن لیجیے۔ دو باکسر اکھاڑے میں ایک دوسرے کو گھونسوں سے مار رہے تھے، اسی کا نام تو باکسنگ ہے کہ کُود کُود کر ایک دوسرے کو مکّے مارنا۔ تماشا دیکھنے والوں کا مجمع لگا ہوا تھا اور ایک صاحب بار بار کہہ رہے تھے کہ مار جبڑے پر، مار جبڑے پر، جبڑے پر مار۔ تو ایک شخص نے پوچھا کہ کیا آپ اس فن کے ماہر ہیں؟ کیا باکسنگ کے فن میں آپ کو کوئی خاص تجربہ ہے جو ان ماہرین کو آپ مشورہ دے رہے ہیں؟ اس نے کہا کہ میں باکسنگ کا کوئی ماہر نہیں ہوں،میں تو ڈینٹسٹ (Dentist) ہوں۔ اگر یہ دونوں ایک دوسرے کے جبڑے پر ماریں گے تو دانت ٹوٹیں گے اور دانت ٹوٹیں گے تو میرے ہی یہاں آئیں گے، کیوں کہ سب سے قریب میری ہی دوکان ہے۔ یہ قصہ مجھے یاد آگیا۔ اس لیے کسی کے اخلاص پر جلدی یقین مت کرو، کسی کے مشورے پر جلدی ایمان مت لاؤ۔ مشورہ کرو، ریسرچ کرو، تحقیق کرو کہ آیا اس میں اخلاص بھی ہے یا نہیں؟
معاشرت کا ایک اہم ادب
اور مشورہ دینے میں بھی قیاس اور اٹکل سے کام نہ کرو مثلاً اگر کسی کا گھر ایک میل پر ہے تو آدھا میل مت بتاؤ،یہ بھی جھوٹ ہے اور جھوٹ بولنا جائز نہیں ہے۔ اگر آدھے گھنٹے کا راستہ ہے تو پانچ منٹ کا، دس منٹ کا مت کہو، اللہ کے یہاں اس پر بھی پکڑہوگی۔ دیہاتوں میں جائیے۔ اگر پانچ میل پر گھر ہے لیکن دیہاتی کہے گا: ارے صاحب! وہ کیا نظر آرہا ہے! بالکل قریب ہے اور پانچ میل تک گھسیٹتے چلے جارہے ہیں۔ یہ سب چیزیں شریعت میں جائز نہیں ہیں۔ صحیح بات بتلانی چاہیے۔ ابھی پورشہ میں سب کا حلیہ ٹائٹ ہوگیا، گاؤں والوں نے یہی کیا کہ صاحب بالکل قریب ہے اور جناب پانچ پانچ میل چھ چھ میل لیے جارہے ہیں اور بیل گاڑی کی سڑکوں پر موٹر چلوادی اور کہا کہ بالکل صاف سڑک ہے۔
دیکھیے جبڑے پر مارنے والے واقعے سے سبق ملا کہ جلدی کسی کا مشورہ مت مانو، ہوسکتا ہے کہ اس کی دانت کی دوکان ہو۔ کسی کے مشورے پر بھی مشورہ کرو کہ میں اس کا مشورہ مانوں کہ نہ مانوں؟میں عرض کررہا تھا کہ ایک ادب پر اتنا بڑا انعام ملا کہ اللہ تعالیٰ نے