ایک ہیں، بس اَبَدًا کی تاکید مسلمانوں کی عزت افزائی کے لیے ہے۔ جیسے بنگلہ زبان میں اپنا دیر کے بعد شبئی اَجْمَعِیْنَ کے معنیٰ دیتا ہے۔ یہ بات بنگلہ دیش کے ایک محدث نے بتائی کہ شبئی کےمعنیٰ اَجْمَعِیْنَ کے ہیں۔ تو یہ امتیازی شرف اللہ تعالیٰ نے سورۂ بَیِّنَۃْمیں اَبَدًا لگاکر ہم کو عطا فرمایا۔ شکر ہے اس مالک کا جس نے ایمان والوں کی عزت افزائی فرمائی، ورنہ خَالِدِیْنَ سے وہ مفہوم حاصل تھا کہ ہمیشہ جنت میں رہیں گے۔ اَبَدًا کا اضافہ ہے۔ لِامْتِیَازِ الشَّرَفِ شرفِ امتیازی اللہ تعالیٰ کو عطا کرنا تھا۔
آیت حَتّٰی یَلِجَ الْجَمَلُ... الخ کی تفسیر
ایک اور صاحب نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ کافر دوزخ میں رہیں گے جب تک اونٹ سوئی کے ناکے میں نہیں گھسے گا:
حَتّٰی یَلِجَ الۡجَمَلُ فِیۡ سَمِّ الۡخِیَاطِ 9؎
کافر دوزخ میں رہیں گے جب تک اونٹ سوئی کے سوراخ میں نہ گھس جائے۔
تو ایک صاحب جو سعودی عرب میں رہ چکے ہیں اور کراچی میں میرے دوست ہیں، بہت قابل اور پڑھے لکھے آدمی ہیں، کہنے لگے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جب تک اونٹ سوئی کے سوراخ میں نہ گھسے گا تب تک کافر دوزخ میں جلیں گے۔ تو ہوسکتا ہے کہ سوئی کا سوراخ اللہ میاں کبھی بڑا کردیں اور اونٹ کو پتلا کرکے اس میں گھسادیں اور سب کافروں سے کہیں کہ بھاگ جاؤ اور دوزخ خالی کرو۔ میں نے کہا: بھائی سنو! قرآن شریف کو عقل سے مت سمجھو، کیوں کہ اونٹ کو پتلا کرنے کی ضرورت ہی نہیں، اگر اللہ پاک چاہیں تو سوئی کا سوراخ اتنا بڑا ہوسکتا ہے کہ اس میں سے اونٹ گزر جائے۔ بھئی جتنی بڑی یہ مسجد ہے اگر اتنی بڑی سوئی بنائی جائے یا اسمبلی ہاؤس یا ہائیکورٹ کی بلڈنگ کے برابر سوئی بنائی جائے تو اس میں سے کتنے اونٹ گزر جائیں گے؟ لہٰذا عقل سے ترجمہ مت کرو۔ میں نے فوراً تفسیر روح المعانی منگائی جس کے مصنف مفتیٔ بغداد علامہ آلوسی السیدمحمود بغدادی رحمۃ اللہ علیہ ہیں۔ حضرت علامہ آلوسی مفسّرعظیم ہیں جن
_____________________________________________
9؎ الاعراف:40