طریقۂ اسلاف میں کامیابی ہے
بس حکیم الامت کے ملفوظات کا مطالعہ کیجیے’’الافادات الیومیہ‘‘ وغیرہ۔ حضرت حکیم الامت فرماتے ہیں کہ دینِ حق میں دو ہی صورتیں ہیں، قدرت ہو تو قتال ورنہ صبر، تیسرا کوئی راستہ نہیں ہے۔ یہ بھوک ہڑتال کرنا، جلسے جلوس نکالنا، ڈنڈےکھانا، اپنے کو گرفتاری کے لیے پیش کرنا اور جیل میں جانا انگریزوں سے آیا ہے۔ صحابہ یا سلفِ صالحین کا ایک واقعہ آپ ثابت کردیں کہ ان لوگوں نے خود کو گرفتاری کے لیے پیش کیا ہو، جلسے جلوس نکالے ہوں، ہڑتالیں کی ہوں، حالاں کہ پہلے زمانے میں بھی ظالم حکمراں ہوئے ہیں۔
بغیر شیخ کے تزکیہ ناممکن ہے
تو خیر میں یہ عرض کررہا ہوں کہ تزکیۂ نفس بغیر شیخ کے نہیں ہوسکتا، اپنی سمجھ میں اپنا مرض نہیں آتا،شیخ بتاتا ہے کہ اس میں یہ مرض ہے، وہ باطن کا ایکسرے کرلیتا ہے۔ مریض تو یہی کہتا ہے کہ صاحب ہم کو بخار نہیں ہے، لیکن حکیم یا ڈاکٹر تھرمامیٹر لگاکر پتا لگالیتا ہے، اس لیے یہ ہوسکتا ہے کہ ہم ایک چیز کو دین سمجھیں اور وہ غیر دین ہو۔ اکابر اگر انتقال کرگئے ہیں تو اکابر کے صحبت یافتہ لوگوں سے مشورہ کیا جائے۔ تزکیۂ نفس اور اللہ تعالیٰ کی محبت اور خالص دینی محبت کے لیے مولانا گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ اور مولانا قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ اور مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے مسلک پر عمل کرکے دیکھو ان شاء اللہ تعالیٰ! دین کی حلاوت مل جائے گی۔ غرض اپنے بزرگوں کے طریقے پر رہو۔ تبلیغ سے، تصنیف سے، تالیف سے اللہ کے بندوں پر محنت کرو۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تیرہ سال تک دلوں پر محنت کی، کوئی جلسے جلوس نہیں نکالے، اس لیے دلوں پر محنت کیجیے۔ لوگوں کو اللہ والا بنائیے۔ جب ساری قوم اللہ والی ہوجائے گی تو حکومت مجبور ہوگی۔ حکومت کس سے بنتی ہے؟ اکثریت سے بنتی ہے۔ جب صالحین کی تعداد زیادہ ہوجائے گی تو حکومت بھی ان ہی کی بنے گی۔ مثلاً: دس کروڑ کی آبادی ہے، آپ نے دلوں پر محنت کی اور چھ کروڑ اللہ والے بن گئے تو ووٹ کس کا زیادہ ہوگا؟ نیک لوگوں کا، اور نیک لوگ کس کو ووٹ دیں گے؟ نیک لوگوں کو۔