جس وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے اُبی بن کعب! مجھے اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ میں تم پر سورۂ بَیِّنَۃْ کی تلاوت کروں، تو حضرت اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم)! اللہ تعالیٰ نے جب آپ کو حکم دیا تھا کہ آپ مجھے یہ سورت سنائیں، تو کیا اللہ تعالیٰ نے میرا نام بھی لیا تھا؟ (حضرت والا نے روتے ہوئے فرمایا) کیا عاشقانہ سوال ہے! دوستو! دین کو لوگ خشک کہتے ہیں، ارے دین تو محبت ہی محبت ہے۔ جس کے اندر محبت نہیں وہ دین کو کیا جانے گا؟ بولو خشک آدمی یہ سوال کرسکتا ہے؟ عاشق ہی یہ سوال کرسکتا ہے کہ یَا رَسُوْلَ اللہِ آللہُ سَمَّانِیْ؟ کیا اللہ نے میرا نام بھی لیا ہے؟ آپ نے فرمایا:نَعَمْ ہاں! عرض کیا:اَذُ کِرْتُ عِنْدَ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ یعنی میں نطفہ سے پیدا ہونے والا ناپاک انسان، ربّ العالمین کے ہاں مجھ جیسے کا ذکر ہوا اور میرا نام لیا گیا! فَذَرَفَتْ عَیْنَاہُ12؎ ان کی آنکھوں سے مارے خوشی کے آنسو بہہ پڑے۔
یہ خوشی کا رونا تھا، افسوس کا رونا نہیں تھا۔ رونے کی سات قسمیں ہیں، جس میں خوشی کا رونا بھی ہے، دُکھ کا رونا بھی ہے، ندامت کا رونا بھی ہے، خوف کا رونا بھی ہے، محبت کا رونا بھی ہے۔ شیخ العرب والعجم حضرت حاجی امداد اللہ صاحب مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ جب خدا کی یاد میں ان کا نام لینے میں اور ان کی محبت میں خوب رونا آئے، تو سمجھ لو آج عشق کا بازار گرم ہوگیا اور فرماتے تھے اس کا نام ہے گرم بازاریِٔ عشق، جیسے تاجر لوگ کہتے ہیں کہ آج بازار گرم ہے یعنی خوب بِکری ہورہی ہے، لین دین خوب تیز ہے، تو اس کو کہتے ہیں کہ بازار گرم ہوگیا۔ اسی طرح جس کو اللہ کی محبت میں رونا آجائے تو سمجھ لو آج اس کے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت کا بازار گرم ہوگیا۔ یہ نام حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے رکھا ہے۔
تو حضرت عبداللہ ابنِ عباس رضی اللہ عنہما حضرت اُبی ابن کعب رضی اللہ عنہ سے قرآن شریف پڑھا کرتے تھے، قرأ ت سیکھتے تھے۔ حضرت اُبی ابن کعب رضی اللہ عنہ اندر ہیں،یہ دروازے پر بیٹھے ہوئے ہیں، دروازہ کھٹکھٹاتے نہیں، انتظار کررہے ہیں۔ حضرت اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ سوکر اُٹھے، اطمینان سے وضو کرکے دروازہ کھولا تو دیکھاکہ یہ بیٹھے
_____________________________________________
12؎ صحیح البخاری:741/2، (4976)،سورۃ لم یکن ، المکتبۃ المظہریۃ