ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2016 |
اكستان |
|
واستثنی من ذلک ما لوکان حافظا لما قراہ وقرا بلاحمل فانہ لا تفسدصلاتہ لان ہذہ القراء ة مضافة الی حفظہ لا الی تلقنہ من المصحف ، ومجرد النظر بلا حمل غیرمفسد لعدم وجہی الفساد.(الموسوعة الفقہیة: ٣٣،٥٧،٥٨) ''فقہاء نے ایک صورت کا اِستثناء کیاہے ، وہ یہ ہے کہ نمازی جوحصہ پڑھ رہا ہے اُس کاوہ حافظ ہے اورقرآن بھی ہاتھ میںنہیںہے تواُس کی نمازفاسدنہ ہوگی اِس لیے کہ یہ پڑھنااُس کے حافظہ کی طرف منسوب ہے نہ یہ کہ وہ قرآن سے سیکھ کر پڑھ رہاہے،اورقرآن میںدیکھنا قرآن اُٹھائے بغیر یہ مفسدصلاة نہیں ہے کیونکہ فسادکی دونوں علّتیں نہیں پائی جاتیں۔'' ١ ممکن ہے کوئی یہ سوال کرے کہ جن مساجدمیںائمہ قرآن دیکھ کرتراویح پڑھاتے ہیںاُن میںاکثرحافظِ قرآن ہی ہوتے ہیں اورقرآن بھی اِمام کے ایک طرف کسی چیزپر رکھاہوتاہے لہٰذا اُن ائمہ کاقرآن دیکھ کرپڑھنایہی ماناجائے گاکہ یہ اپنے حافظہ سے پڑھ رہے ہیں،جب فسادِصلاة کی دونوں وجہیںنہیںپائی گئیںتواب کوئی اِعتراض بھی نہیںہوناچاہیے ؟ تو عرض ہے کہ فاسدنہ ہونے کامطلب یہ نہیںہے کہ نماز من کل الوجوہ درست ہے بلکہ اِس میںبہت سی ایسی خرابیاںاب بھی ہیںجونماز کو کراہت کے درجے سے نیچے نہیںاُترنے دیتیں،ماسبق میںوہ خرابیاںتفصیل سے ذکرکی جاچکی ہیں۔ ڈاکٹر صالح بن محمدالرشیدنے اپنی کتاب المتحف فی احکام المصحف میں قرآن دیکھ کر قراء ت کرنے میںجوخرابیاںہیںاُن کواِختصار کے ساتھ ذکرکیاہے، فرماتے ہیں : ویشغل عن بعض سننہا وہیئاتہا فیفوت سنة النظرفی موضع السجود و وضع الیمنی علی الشمال ویفضی الی التشبہ باہل الکتاب فضلا عن کونہ احداثا فی الدین لم یرد الشرع باباحتہ.(المتحف فی احکام المصحف : ٦٥٣ ) ١ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو : غنیة شرح منیہ ٢٧٤ ، البحرالرائق ٢/١٧، تبیین الحقائق ١/١٥٩ ، ردالمحتار: ٢/٣٨٤ )