ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2016 |
اكستان |
|
تہی دست اورتہی دامن ہوچکی ہے ؟ کیامرکزی مساجدکے ائمہ بھی اِس لائق نہیںرہے ؟ میرے خیال سے توضرورت اوراِضطراربقائِ حفظ ِ قرآن کی ہے، نمازمیں حفظ سے قراء ت لازم قراردینے کی ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ حفظِ قرآن کی تبلیغ ہو اورحفاظت ِ قرآن کادائرہ مزیدوسیع ہو۔ اِسی لیے شیخ اِبن بازرحمة اللہ علیہ نے بھی باوجودیکہ وہ مطلقاًجوازکے قائل ہیںلیکن بالآخریہ تسلیم کیے بغیرنہ رہ سکے،فرماتے ہیں : اما اذا تیسرالحافظ فہو اولی لانہ اجمع للقلب واقل للعبث لان حمل المصحف یحتاج وضع ورفع وتفتیش الصفحات ، فیصار الیہ عند الحاجة واذا استغنی عنہ فہو افضل.(مجموع فتاوی ابن باز ١١/ ٣٤٠ ) ''جب حافظِ قرآن میسرہوتووہی بہترہے اِس لیے کہ حفظ سے پڑھنے میںخشوع وخضوع زیادہ ہوتاہے اورنامناسب حرکتیںکم ہوتی ہیں کیونکہ اگرقرآن ہاتھ میں لے کرقرا ء ت کی جائے تویقینااُسے رکھنے اُٹھانے اورصفحات پلٹنے کی بھی ضرورت ہوگی لہٰذا بوقتِ ضرورت ہی قرآن دیکھ کرپڑھنے کی اِجازت دی جائے گی اور جب ضرورت نہ ہو توحفظ سے پڑھناہی افضل ہے۔'' اِسی طرح شیخ اِبن جبرین نے بھی اگرچہ وہ نوافل اورتراویح میںقرآن دیکھ کر پڑھنے کے قائل ہیںلیکن فرض نمازمیںآپ نے سختی سے منع کیاہے اوراِس کی بہت سی وجوہا ت بیان فرمائی ہیں سمجھنے کی بات یہ ہے کہ وہ تمام وجوہات اگرفرض نمازمیںپائی جا تی ہیں تونوافل اورتراویح میںبھی پائی جاتی ہیں۔شیخ اِبن جبرین کے الفاظ ملاحظہ ہوں : لایجوز ذلک دائما لما فیہ من الاشتغال داخل الصلاة کامساک المصحف وتقلیب الاوراق والنظرالی الاسطر فالمصلی ماموربان ینظر الی موضع سجودہ وان یضع یدیہ علی صدرہ.(ابن جبرین) ''قرآن دیکھ کرنمازپڑھناکبھی بھی جائزنہیںہوسکتااِس لیے کہ اِس میںنمازکے