ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2016 |
اكستان |
|
(٨) فوجی لوگوں کے فرائض میں قرآنِ مجید کی تعلیم بھی تھی ،صوبوں کے حکام سے اور فوجی اَفسروں سے ہرسال فارغ التحصیل حفاظِ قرآن کی فہرست طلب فرماتے تھے چنانچہ حضرت سعد نے اپنی فوج کے تین سو آدمیوں کے نام بھیجے اور حضرت اَبوموسٰی نے بصرہ سے ایک سال میں دس ہزار حفاظ کی فہرست بھیجی، آپ اُن سے بہت خوش ہوئے اور اُن کا وظیفہ بڑھا دیا۔(ملل و نحل لابن حزم) ظاہر ہے کہ اِس سے دُوسرے حکامِ صوبہ کو کس قدر رغبت ہوئی ہوگی اور آئندہ سال کتنی لمبی لمبی فہرستیں ہرصوبے سے آئی ہوں گی اور حفاظِ قرآن کی مجموعی تعداد حضرت فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانے میں کہاں تک پہنچی ہوگی اور یہ بھی ظاہر ہے کہ یہ تعلیم صرف الفاظ ِ قرآن کی نہیں ہو سکتی جیسا کہ آج کل حافظِ قرآن اُس کو کہتے ہیں جو صرف الفاظِ قرآنی کو یاد کر لے، بھلا ہو سکتا ہے کہ صحابہ کرام کسی کو قرآنِ مجید پڑھادیں اور صرف الفاظ کے یاد کرانے پر قناعت کریں۔ (٩) بڑی تاکید اِس بات کی فرماتے تھے کہ قرآنِ مجید اُن ہی لو گوں سے پڑھا جائے جن کی سند کا سلسلہ صحیح طورپر رسولِ خدا ۖ تک پہنچا ہو۔ (١٠) ایک مرتبہ ایک اعرابی کو قرآنِ مجید کی ایک آیت میں غلط اعراب پڑھتے ہوئے سنا تو آپ نے حکم جاری کیاکہ زبانِ عرب کے قواعد کی تعلیم دی جائے ،علمِ نحو کے اِیجاد کا یہی سنگ ِ بنیاد ہے۔ (١١) قرآنِ مجید کی خدمت میں توآپ کو اِس قدر شغف تھا کہ اِس کی کتابت کا خاص اہتمام فرماتے تھے ،خفی قلم سے لکھنے کو منع فرماتے تھے۔(اتقان) (١٢) تفسیر قرآنِ مجید کی تعلیم میں بھی جو اَصل چیز تھی یعنی آیاتِ اَحکام کی توضیح اور اُن کے مطالب کی تفہیم، اِس کی طرف تو آپ نے پوری توجہ فرمائی اَلبتہ (باقی صفحہ ٥٤)