ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2016 |
اكستان |
|
عرض کیا کہ میرے چچا عیینہ آپ سے ملنا چاہتے ہیں آپ نے اِجازت دے دی عیینہ نے آپ کی مجلس میں آکر اِنتہائی نا مناسب اور غلط گفتگو کی، کہنے لگا کہ عمر آپ ہمیں ہمارا پورا حق بھی نہیں دیتے اور ہمارے ساتھ اِنصاف بھی نہیں کرتے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اِس پر غصہ آگیا قریب تھا کہ آپ اُسے کوئی سزا دیتے فورًا حضرت حر بن قیس بول اُٹھے کہ اَمیر المومنین اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ۖ سے فرمایا ہے (خُذِ الْعَفْوَ وَ أْمُرْ بِالْعُرْفِ وَاَعْرِضْ عَنِ الْجَاھِلِیْنَ) (آپ عفو ودر گزر سے کام لیا کریں نیکی کا حکم دیا کریں اور جاہلوں سے اِعراض کیا کریں) اور یہ شخص بھی جاہلین میں سے ہے، یہ آیت سنتے ہی فاروقِ اعظم کا غصہ ختم ہو گیا اور اُسے کچھ نہیں کہا، آپ کی یہ عادت معروف تھی کَانَ وَقَّافًا عِنْدَ کِتَابِ اللّٰہِ یعنی کتاب اللہ کے آگے گردن جھکادیتے تھے۔'' ١ (٢) علامہ اِبن جوزی رحمہ اللہ (م : ٥٩٧ھ) فرماتے ہیں : ''حضرت مسروق بن الاجدع سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ منبر ِ رسول ۖ پر تشریف لائے اور لو گوں کو خطبہ دیا دورانِ خطبہ آپ نے فرمایا : '' لوگو ! یہ تمہارا خواتین کے گراں گراں مہر مقرر کرنا کیساہے (یعنی تم لوگ ایسا کیوں کرتے ہو ؟ ) جبکہ رسول اکرم ۖ اور آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم تومہر کم مقرر کیا کرتے تھے، مہر کی مقدار چار سو درہم یا اِس سے بھی کم ہونی چاہیے، اگرمہر کا گراں قدر ہونا کوئی تقویٰ کی چیز ہوتی یا یہ کوئی عزت کی بات ہوتی تو لوگ اِس میں حضور علیہ السلام اور آپ کے صحابہ سے سبقت نہ لے جاتے لہٰذا اَب مجھے پتہ نہ چلے کہ کسی نے بیوی کا مہر چار سودرہم سے زیادہ مقرر کیا ہے ١ بخاری شریف ج ٢ ص ٦٦٩ باب قولہ (خُذِ الْعَفْوَ وَ أْمُرْ بِالْعُرْفِ )