ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2016 |
اكستان |
|
عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ قَالَ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ۖ یَصُوْمُ مِنْ غُرَّةِ کُلِّ شَھْرٍ ثَلٰثَةَ اَیَّامٍ وَقَلَّمَا کَانَ یُفْطِرُ یَوْمَ الْجُمُعَةِ۔ ( ترمذی ج ا ص١٥٧ ، نسائی ج ١ ص ٢٥١ ، مشکٰوة شریف ص١٨٠) ''حضرت عبد ا للہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسولِ اکرم ۖ کبھی کبھی مہینہ کے شروع کے تین دنوں میں بھی روزہ رکھ لیا کرتے تھے اور ایسا کم ہی ہوتا تھا کہ آپ جمعہ کے دن روزہ نہ رکھتے ہوں۔ '' عَنْ اُمِّ سَلَمَةَ قَالَتْ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَأْمُرُنِیْ اَنْ اَصُوْمَ ثَلٰثَةَ اَیَّامٍ مِّنْ کُلِّ شَھْرٍ اَوَّلُھَا الْاِثْنَیْنِ وَالْخَمِیْسَ وَالْخَمِیْس۔ ( اَبوداود ج١ ص ٣٣٢ ، نسائی ج١ ص٥٦ ٢ ، مشکٰوة ص٨٠ ١ ) ''حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں کہ رسولِ اکرم ۖ مجھے حکم دیا کرتے تھے کہ میں ہر مہینہ میں تین دن روزہ رکھا کروں جن میں سے پہلا روزہ پیر کا رکھوں پھر جمعرات اور جمعرات کا روزہ رکھوں۔ '' ف : مندرجہ بالا اَحادیث ِ مبارکہ سے ثابت ہورہا ہے کہ ہر مہینہ تین نفلی روزے رکھنے چاہئیں جنابِ رسول اللہ ۖ خود بھی ہر مہینے تین روزے رکھتے تھے اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو بھی رکھنے کی ترغیب دیا کرتے تھے ،اِن ہی اَحادیث ِ مبارکہ سے یہ بات بھی ثابت ہورہی ہے کہ یہ روزے مہینہ کے کسی بھی تین دن میں رکھے جاسکتے ہیں چاہے مہینے کے شروع میں رکھ لیں چاہے درمیان میں رکھ لیں چاہے اَخیر میں رکھ لیں، اور ایسی صورت میں اگر روزوں کی اِبتداء پیر یا جمعرات سے کرلیں تو اچھا ہے، تاہم چونکہ جنابِ نبی کریم ۖ نے حضرت اَبوذر کو چاند کی تیرہ چودہ پندرہ تاریخ کو روزہ رکھنے کا حکم دیا تھا (جنہیں اَیامِ بیض کہتے ہیں) اور آپ کا اَپنا معمول بھی اکثر اِن ہی اَیام میں روزہ رکھنے کا تھا چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عباس فرماتے ہیں کہ رسولِ اکرم ۖ سفر و حضر میں کبھی بھی اَیامِ بیض کے روزوں کا ناغہ نہیں فرماتے تھے اِس لیے اگر اِن اَیام میں روزہ رکھنے کا معمول بنالیا جائے تو بہت ہی بہتر ہے۔