ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2016 |
اكستان |
|
کون نہیں جانتا کہ اللہ کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے یہ خدائی اِنتقام ہی تو ہے کہ ''فقیروں'' کے بجائے ''رئیسوں'' کے ہاتھ اُس نے کشکول دَھر دیا ہے ''اپنا در'' اُن پر بند کر کے ''دربدر'' کر دیا ! کیا کوئی کھلی آنکھ اِس حقیقت کا اِنکار کر سکتی ہے ؟ ؟ فَاعْتَبِرُوْا یَا اُولِی الْاَبْصَارْ مسلمانوں کے ملک میں حکومت کا فرض ہے کہ وہ اِسلامی تعلیمات کے اِدارے قائم کرے مسلمانوں اور اُن کی آئندہ آنے والی نسلوں کو بِلا معاوضہ تعلیم دے۔ مساجد میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کی جاتی ہے مدارس میں علومِ نبوی پڑھے پڑھائے جاتے ہیں یہ اسکول کالج کی طرح کے کاروباری اِدارے نہیں ہیں اِن سے بجلی، پانی، گیس، فون کے بل لینا اور اِس کے علاوہ دیگر ٹیکس عائد کرنا بہت بڑا گناہ ہے کسی کافر ملک میں تو ایسی صورت ہوسکتی ہے مگر کسی بھی اِسلامی ملک میں اِس کا تصور بھی نہیں کیا جانا چاہیے مساجد اور مدارس جیسے مقدس اِداروں کو کلبوں، سینما گھروں اور تھیٹروں کے درجہ میں لاکر وصولیاں کرنا گناہِ عظیم ہے جس سے حکمرانوں کو باز بھی آنا چاہیے اور توبہ بھی کرنی چاہیے۔ ماہانہ بلوں کی تر سیل کاعمل ہر سر کاری محکمہ میں بے قاعدگی کا شکار ہے تقریبًا چار پانچ ماہ سے جامعہ کے بل موصول نہیں ہو رہے تھے اور ہر ماہ جامعہ کا فرستادہ واپڈا کے دفتر جاکر توجہ بھی دلاتا اور بل طلب بھی کرتا مگرہر بار واپڈا کے اہلکار ٹال دیتے اور اب آخر میں پانچ لاکھ پانچ ہزار سات سو نواسی روپے کا بل یک لخت دے مارا۔ مزید بر آں علاوہ دیگر تمام ٹیکسوں کے مساجد و مدارس کے ہر بل میں ٹیلی ویژن ٹیکس کے پینتیس روپے بھی وصول کیے جاتے ہیں جبکہ مساجد اور مدارس میں ٹی وی نہیں ہوتا۔