ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2016 |
اكستان |
|
مائل ہوگئے ہوں۔یہ اِس بات کی علامت ہے کہ اُن کے آباواَجداد نے بھی دل کی گہرائی اور رُوح کے اِطمینان کے ساتھ اِیمان کو قبول کیا تھا اور وہ بھی اپنے اندر پائی جانے والی ہزار خامیوں کے باوجوداِس مذہب کی صحت و صداقت کو دل و جان سے مانتے اور اُس پر یقین رکھتے ہیں۔ فی الوقت عالمی سطح کے تمام سرکاری و غیر سرکاری سروے کی رپورٹوں سے یہ پتاچل رہاہے کہ دُنیا بھر میں اور خصوصًا اُن ملکوں میں جہاں اِسلام مخالف تحریکوں کو ہوادی جاتی ہے بلکہ جہاں سے ایسی تحریکوں کے بدبودار چشمے اُبلتے ہیںاُن ملکوں میں مسلمانوں کی تعداد لگاتار بڑھ رہی ہے، مغربی معاشرہ اور وہاں کے اُصول و اقدار نے لوگوں کو اِس قدرپریشان اور بے چین کر رکھا ہے کہ وہ اِسلام کے خلاف ہزار بہتان طرازیوں کے باوجود اُس کی سچائیوں کا پوری غیر جانبداری کے ساتھ مطالعہ کرتے اور پھر اُس کے دامن سے وابستہ ہوجاتے ہیں،ظاہر ہے کہ اِن خطوں کے ایسے لوگوں کو تو کوئی بھی مسلم داعی یا مبلغ یا حکومت اِسلام قبول کرنے پر مجبور نہیں کر رہی۔ پھرآج دُنیا کے جو ممالک سب سے زیادہ مسلم آبادی والے شمار کیے جاتے ہیںاُن کی تاریخ تو یہ بتاتی ہے کہ وہاں کبھی مسلمانوں نے فوج کشی نہیں کی،اُن مقامات پر اِسلام کی اِشاعت کا ذریعہ مسلم تاجروں،علماء کے اَخلاق و عادات اوراِسلام کی شفاف تعلیمات رہی ہیںمثلاً اِنڈونیشیا، چین، اَفریقہ کے متعدد ممالک،یورپی ممالک اور اَمریکہ میں جو مسلمانوں کی تعداد لگاتار بڑھ رہی ہے تو کیا اِن لوگوں کو تلوارکے زور پر اِسلام قبول کرنے کے لیے مجبور کیا جارہاہے ؟ اِسلام پر اِنتہا پسندی و تشدد کا اِلزام لگانے والوں کومغرب کے اُن نو مسلموں سے تحقیق کرنی چاہیے اور پوچھنا چاہیے کہ اُنہوں نے اپنے سابق مذہب سے توبہ کرکے اِسلام کو کیوں اپنالیا ؟ تب اُنہیں یقینا اصل حقیقت کا پتا لگ جائے گا۔ اِن تمام خطوں میں اِسلام اپنی سماحت،اِعتدال پسندی،اپنے فطری اوراِنسانی ذہن و فکر کو اپیل کرنے والے اصول کی وجہ سے پھیلاہے اور پھیل رہاہے،ہمیں روزانہ اِسلام کے دائرے میں آنے والوں کی خبریں مِل رہی ہیںپھر جو لوگ دائرہ اِسلام میں داخل ہورہے ہیںوہ کبھی اِس سے بیزاری یا دست برداری کا تصور بھی نہیں کرتے،حالانکہ عصرِ حاضر کے پشتینی مسلمان تبلیغِ دین اور