ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2016 |
اكستان |
|
یسے میں اُن کے ساتھ جوبھی کیاگیاوہ ظلم ہرگزنہیں تھا،وہ عین اِنصاف تھا اوراِس سے اِسلام کے خلاف اِفترا پردازی کرنے والوں کودلیل پکڑنے کاکوئی جوازنہیں ملتا ۔ (٥) پھربہتان طرازوں کو اگر سیرتِ نبوی کا یہ پہلو سمجھ میں آجائے جو سراسر عفوودرگزر اور رحمت و مسامحت پر مشتمل ہے تو شاید ہی وہ اِس کی جرأت کر سکیں،کیا آپ نے جنگی قیدیوں کوکبھی بھی اِسلام لانے پر مجبور کیا ؟ کبھی نہیں ! بلکہ آپ نے اُنہیں اُن کے حال پر چھوڑ دیا،مثال کے طورپر ''قبیلہ بنی حنیفہ کے سردار ثمامہ بن اُثال حنفی کا واقعہ لے لیجیے جنہیں مسلمانوں نے کسی سریہ میں گرفتار کرلیاتھا،وہ لوگ اِنہیں پہچانتے بھی نہیں تھے،صحابہ کرام اِنہیں پکڑ کر آپ کی خدمت میں لائے،جب آپ نے اِنہیں دیکھاتو فورا پہچان گئے کہ یہ تو اپنے قبیلے کے سردار ہیں، آپ نے اُنہیں اُن کے حسبِ مقام عزت و اِحترام دیا،اُنہیں تین دن تک اپنے یہاں ٹھہرائے رکھا،ہر دن آنحضرت ۖ اُن سے خیریت پوچھتے،وہ جوابًا عرض کرتے کہ اگر آپ کو مجھ سے مال چاہیے تو میں دینے کو تیار ہوں اور اگر آپ مجھے قتل کر دیتے ہیں تو ایک (مجرم ) خون والے شخص کا قتل کریں گے (یعنی آپ کو جنگ کے اُصول کے مطابق اِس کابھی اِختیار ہے کہ آپ مجھے قتل کردیں)اوراگر آپ مجھ پر اِحسان کرتے ہیںتو آپ ایک اِحسان شناس شخص پر اِحسان کریں گے( یعنی میں آپ کے اِحسان کا بدلہ چکادُوں گا)،نبی پاک اُن کو اُن کے حال پر چھوڑدیتے یہاں تک کہ نبی پاک اور مسلمانوں کی نرم خوئی اور حسنِ سلوک نے ثمامہ کے دل کو نرم کردیا۔ حضور ۖ نے اُنہیں چھوڑ دیا چنانچہ وہ گئے غسل کیا پھر آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور پوری خوش دلی اور اِطمینانِ قلب کے ساتھ اِیمان قبول کرلیا اور آپ سے کہااے محمد ۖ رُوئے زمین پر آپ سے زیادہ مبغوض میری نگاہوں میں کوئی نہیں تھالیکن اب رُوئے زمین پر آپ سے زیادہ محبوب شخص میری نگاہوں میں کوئی نہیں ہے،بخدا پہلے