ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2016 |
اكستان |
|
کے متعلق جو آپ کااور آپ کے آباؤ اَجداد کا دین ہے مجھ سے کوئی بات نہیں کر رہے حالانکہ میں اُسے گرانے آیا ہوں۔ عبد المطلب نے اُسے جواب دیا میں تو صرف اپنے اُو نٹوں کامالک ہوں، کعبہ کا مالک کوئی اور ہے وہی تیرے حملے سے اُس کی حفاظت کرے گا۔ اَ بر ہہ نے کہا کہ میرے حملے کو کوئی نہیں روک سکتا۔ عبد المطلب نے کہا کہ مجھے کیا ! تم جانو اور اُس گھر کا مالک جانے ،یعنی تو آگے بڑھ حملہ کر پھر تجھے معلوم ہو جائے گا کہ اللہ تیرے حملے کو روکتا ہے یا نہیں ؟ اَبرہہ نے دیکھا کہ آپ کو اللہ تعالیٰ کے حفاظت کرنے کا مکمل یقین اور پختہ اِعتماد ہے تو اُس نے عبدالمطلب کی خوشنودی حاصل کر نے کے لیے جلدی سے آپ کے اُونٹ واپس کر دیے۔ عبدالمطلب کے ساتھ قبیلہ قریش کے دیگر سرداران بھی تھے۔ وفد کے دیگر اَر کان نے اُس سے کہا کہ وہ بیت اللہ کو گرانے کا اِرادہ ترک کر دے اور اِس کے بدلہ میںقمامہ کی تہائی آمدنی لے لے، لیکن اُس نے اِس مو ضوع پر کسی قسم کی گفتگو کرنے سننے اورکوئی پیشکش قبول کرنے سے اِنکار کر دیا۔ سر دارانِ قریش غم واَلم کا پہاڑ سر پر لیے واپس ہوئے، اُنہیں کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ اِس معاملے کو کیسے سلجھائیں چنانچہ اہلِ مکہ نے اپنی جان بچانے کے لیے اپنے شہر عزیز کو چھوڑا اور مکہ کے پہاڑوں میں خیمہ زن ہو گئے۔ عبدالمطلب اور سر دارانِ قریش بیت اللہ کے پاس گئے اور اُس کے دروازے کی چو کھٹ سے لپٹ گئے اور باربار اَبرہہ اور اُس کے لشکر کے خلاف اللہ تعالیٰ سے دُعا کرتے اور مدد مانگتے رہے اور اُس سے درخواست کر تے رہے کہ وہ کعبہ کی حفاظت کرے، اِس کے بعد عبدالمطلب اور اُس کے ساتھی اپنی قوم والوں کے پاس چلے گئے جو پہاڑوں میں پناہ لیے ہوئے تھے۔ اب وہ اِس اِنتظار میں تھے کہ دیکھیں یہ خبیث لشکر مکہ میں داخل ہو کر کیا کرتا ہے ؟ اَب مکہ اپنے با شندوں سے خالی ہو چکا تھا اور اَبر ہہ مکہ میں داخل ہونے کی پوری تیاری کر چکا تھا۔ (باقی صفحہ ٥٧ )