ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2016 |
اكستان |
|
اُمت ِ اسلامیہ جس کا فرض منصبی یہ ہے کہ (حق و صداقت کی علمبردار بن کر پوری دُنیا کو اِس حقیقت کا مشاہدہ کرائے کہ وہ دستورِ اَساسی اور کا نسٹی ٹیوشن یا مینی فسٹو جس کو'' کلمة اللہ'' کہنا چاہیے، صرف اُسی کو یہ حق حاصل ہے کہ سب سے بلند و بالا رہے )وہ اپنے اِس نصب العین میں کامیاب نہیں ہو سکتی جب تک رُوحانی عظمت و اِ حترام، اَخلاقی اَقدار و بر تری کے ساتھ مادّی تر قیات میں بھی اِس کاقدم سب سے آگے اور اِتنا آگے ہوکہ دُوسرے قدم وہاں تک پہنچتے پہنچتے تھک جائیں۔ اَفراد کی ہیئت ِاِجتماعی کانام'' ملت'' ہے۔ یہ ہیئت ِ اِجتماعی ترقی کے قطب مینار پر اُسی وقت پہنچ سکتی ہے جبکہ اُس کے اَفراد کی غالب اکثریت ترقی کے تمام زینے طے کرچکی ہو، اگر مسلمان اِرشادِربانی (وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُؤْمِنِیْنَ) کے مضمرات کو اپناجذبہ عمل بنالیں تولا محالہ اُن کی تعلیم کامیدان دُوسری قوموں کے تعلیمی میدانوں سے بہت زیادہ وسیع ہوگا اور اِس بنا پر اُن کے تعلیمی مصارف بھی دُوسری قوموں کے مقابلہ پر بہت زیادہ ہوں گے۔ اِس اِجمال کی تفصیل یہ ہے کہ مسلمانوں کی تعلیم کے لیے صرف وہ اسکول، کالج اور یونیورسٹیاں کافی نہیں ہوں گی جن میں عصری تعلیم، سائنس، کیمسٹری، فلسفہ، طبعیات، فلکیات یا ڈیفنس اور دفاعی وجنگی فنون کی تعلیم دی جاتی ہو اور اِن کا ماہر بنایا جاتاہو بلکہ اُن کو ایسی درسگاہوں، تر بیت گاہوں اور ایسے دارُالعلوموں کی بھی ضرورت اور اُتنی ہی شدید اور بنیادی ضرورت ہوگی جہاں مذہبی تعلیم اور اَخلاق اور رُوحانیت کی تربیت اور تکمیل ہوسکے تاکہ مسلمان نوجوا نوں کا طبقہ جس طرح عصری علوم اور فنونِ جدید کا ماہر ہو وہ خدا شناسی، حقیقت شناسی، اور اَعلیٰ اَخلاق و کر دار کا بھی ایسا کامل نمونہ ہو کہ وہ (شُہَدَائُ عَلَی النَّاسِ) بن سکے اور خدا وند ِعالم کی حجت پوری ہو سکے۔ بالفاظِ دیگر اگر کمیو نسٹ رُوس کے بجٹ کا ساٹھ فیصدی تعلیم پر صَرف ہوتاہے تو خلافتِ اِسلامیہ کو اپنے بجٹ کا اَسی فیصد تعلیم کے لیے مخصوص کرنا پڑے گا تاکہ دُنیاوی تعلیم کے ساتھ دینی تعلیم بھی ہو سکے اور دُنیا اِمام غزالی اِبن رُشد اور رازی جیسے ائمہ علوم و فنون کے فیوض و بر کات سے بہرہ یاب ہو سکے۔