ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2015 |
اكستان |
|
حضرت عزیر علیہ السلام کا تعلق بنی اِسرائیل سے تھا، آپ اللہ تعالیٰ پر مضبوط اِیمان والے نیک بندے اور عارف باللہ تھے، آپ تقویٰ اور پرہیزگاری کے سبب اپنی قوم میں مشہور تھے، آپ توراة کے حافظ تھے جو آپ کے دِل پر نقش تھی۔ حضرت عزیر علیہ السلام کا ایک سرسبزو شاداب باغ تھا جس میں اَنواع واَقسام کے پھل اور سبزیاں تھیں، وہ باغ اُس بستی کے قریب ہی تھا جس میں آپ رہائش پزیر تھے، اپنے روز مرہ کے معمول کی طرح حضرت عزیر علیہ السلام علی الصبح گھرسے نکلے اور اپنے گدھے پر سوار ہو کر باغ کی طرف روانہ ہوئے، آپ کے پاس ایک ٹوکری میں کھانا تھا کہ بھوک لگنے پر اُسے تناول فرما سکیں، حضرت عزیر علیہ السلام باغ میں پہنچ کر گدھے سے اُترے اور باغ میں کام کرنے میں مصروف ہوگئے اور دوپہر تک درختوں، پودوں اور پھلوں کی دیکھ بھال کرتے رہے پھر گدھے پر سوار ہو کر واپسی گھر کی طرف چل پڑے، راستے میں ایک قبرستان واقع تھا جس میں بستی والے اپنی میتوں کو دفناتے تھے اُن میں بعض بوسیدہ قبریں منہدم ہو چکی تھیں اورمُردوں کی ہڈیاں اِرد گرد بکھری ہوئی تھیں، حضرت عزیر علیہ السلام وہاں گدھا روک کر اُس سے اُترے اور ایک گھنے سایہ دار درخت کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ گئے، سخت گرمیوں کے دِن میں باغ میں کام کرنے کی مشقت کی وجہ سے آپ تھکاوٹ کا شکار تھے، آپ نے کچھ دیر آرام فرمایا پھر آپ کو بھوک محسوس ہوئی تو آپ نے اپنے پاس موجود ٹوکری میں سے کچھ کھانا نکالا اور اُسے کھانا شروع کرنے ہی لگے تھے کہ آپ کی نظر اِرد گرد کی قبروں پر پڑی، آپ اِدھر اُدھر بکھری مُردوں کی ہڈیوں کے بارے میں غور وفکر فرمانے لگے وہاں چھائی ہوئی خاموشی سے اور اِرد گرد پھیلی موت سے آپ پر دہشت طاری ہوگئی، آپ نے د ِل ہی دِل میں سوچا : ( اَنّٰی یُحْیِی ھٰذِہِ اللّٰہُ بَعْدَ مَوْتِھَا ) (سُورة البقرہ : ٢٥٩ ) ''کیسے زِندہ کرے گااِس کو اللہ مرنے کے بعد۔'' آپ اِس کیفیت کے متعلق سوچنے لگے کہ اللہ تعالیٰ اِن مٹی میںمِل جانے والی ہڈیوں کو نئے سرے سے کیسے زندہ کریں گے ؟ کیونکہ حضرت عزیر علیہ السلام کو مُردوں اور قبر والوں کے متعلق اللہ