ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2014 |
اكستان |
الجواب وباﷲ التوفیق ! ڈیجیٹل نظام کے ذریعہ کمپیوٹر یا ٹی وی اسکرین پر ظاہر ہونے والے مناظر کی شرعی حیثیت کے بارے میں جامعہ دارُالعلوم کراچی کا مؤقف اور فتوی نظر نواز ہوا جس میں ڈیجیٹل نظام کے ذریعہ محفوظ کیے گئے عکس کو آئینہ کے عکس پر قیاس کرکے بلکہ اِس سے بھی کم درجہ تسلیم کرکے تصویر سازی سے خارج قرار دیا گیا ہے او راِس کے جواز کا حکم لکھا ہے ، اِس سلسلہ میں چند باتیں غور طلب ہیں : Œ ڈیجیٹل نظام کے ذریعہ محفوظ کردہ عکس کو آئینہ کے عکس کی طرح ناپائیدار قرار دے کر تصویر میں داخل نہ ماننا ، درست معلوم نہیں ہوتا، دونوں میں واضح فرق موجود ہے، آئینہ کا عکس مستقل نہیں ہوتا، وہ صاحب ِعکس کے تابع ہوتا ہے، آئینہ کے سامنے سے جیسے ہی ذی عکس ہٹے گا عکس بھی فوراً ختم ہو جائے گا، ایک لمحہ کے لیے بھی عکس بغیر ذی عکس کے قائم او رباقی نہیں رہتا او راگر ذی عکس دوبارہ آئینہ میں اپنا عکس دیکھنا چاہے تو اُس کو دوبارہ آئینہ کے سامنے آنا پڑے گا، بغیر اِس کے اُس کو اپنا عکس نظر نہیں آئے گا جبکہ اِس کے بالکل متضاد ڈیجیٹل نظام کے ذریعہ برقی ذرّات کی شکل میں جو عکس محفوظ ہوا ہے وہ مستقل ہوتا ہے، صاحب ِعکس کے تابع نہیں ہوتا جب چاہیں اُس کو بلا ذی عکس کے اسکرین پر دیکھ سکتے ہیں۔ چ حضراتِ اکابر کی تحریرات سے معلوم ہوتا ہے کہ عکس کے جواز کی وجہ یہ نہیں ہے کہ وہ کسی سطح پر رنگ ومسالہ سے قائم وپائیدار نہیں ہوتا بلکہ اُس کے جواز کی اَصل وجہ یہ ہے کہ وہ غیر مستقل اور ذی عکس کے تابع ہوتا ہے، بغیر ذی عکس کے ایک لمحہ بھی قائم اور باقی نہیں رہتا، اگر کسی طرح سے اُس کی تبعیت اور ذی عکس پر اِس کا یہ اِنحصار ختم ہوجائے او راُس میں ایسا اِستقلال پیدا ہو جائے کہ جب چاہیں بلا ذی عکس کے اِس کو دیکھنا ممکن ہو، خواہ رنگ ومسالہ کے ذریعہ قائم کیے بغیر محض اِنعکاسی صورت ہی میں کیوں نہ ہو تو یہ بھی تصویر سازی کے حکم میں داخل ہو گا۔ عکس کے بقاء اور قیام وپائیداری کا مفہوم فقط اِتنا ہے کہ عکس مستقل بن جائے، ذی عکس پر اِس کا اِنحصار ختم ہو جائے اور بلا ذی عکس کے اِس کو دیکھ لیا جانا ممکن ہو، خواہ اُس میں یہ بقاء وپائیداری