٢ ولو قال عنیت بہ بیاض النہار خاصةً دین فی القضاء لانہ نوی حقیقة کلامہ ٣ واللیل لایتناول الا السواد والنہار لا یتناول الا البیاض خاصة وہو اللغة
دونوں کو شامل ہو گا ۔
تشریح : معیار : وہ زمانہ جو پورے کام کو گھیرا ہوا ہو ۔ یہاں اوپرکے قاعدے کو بتانا چا ہتے ہیں کہ یوم کا لفظ دن کے سفیدی ]بیاض النہار[ کے لئے بھی آتا ہے ، اور رات یا دن میں سے کوئی بھی وقت ہوجسکو مطلق وقت کہتے ہیں اس کے لئے بھی آتا ہے ، پھر آگے قاعدہ بتاتے ہیں کہ ، اگر یوم کے ساتھ ایسا کام ملا ہوا ہو جو دیر تک ہو تا رہتا ہو ، جسکو فعل ممتد کہتے ہیں ، تو اس سے دن کی سفیدی مراد لی جاتی ہے ، کیونکہ پورا دن ایسا وقت ہے جو اس لمبے کام کو گھیر سکے ، جیسے روزہ ، عورت کے ہاتھ میںطلاق دینے کا اختیار ، اس سے پورا دن مراد ہو گا۔۔ اور اگر یوم کے ساتھ ایسا فعل لگا یا جائے جو دیر تک نہ رہتا ہو ، جسکو فعل غیرممتد کہتے ہیں ، جیسے طلاق دینا ، نکاح میں قبول کر نا تو اس سے مطلق مراد لی جاتی ہے ، آیت۔ و من یولھم یومئذ دبرہ الا متحرفا لقتال او متحیزا الی فئة فقد باء بغضب من اللہ ۔ (آیت١٦، سورة الانفال ٨ ) میں بھی یوم سے مطلق وقت مراد ہے کیونکہ رات میں جنگ میں پیچھے ہٹے یا دن میں دونوں ممنوع ہیں ۔
لغت: قرن : ملادے ۔ یمتد : مد سے مشتق ہے ،ممتد ہو تا ہو ، لمبا ہوتا ہو۔ الامر بالید : معاملہ ہاتھ میں ہو ، اس سے مراد ہے عورت کو طلاق دینے کا اختیار ہو ۔معیار: وہ زمانہ جو اپنے کام کو گھیرے ہوا ہو یولھم : پشت پھیرتا ہو ، دبر : پشت ، پیٹھ ۔
ترجمہ : ٢ اور اگر کہا کہ یوم سے خاص طور پر دن کی سفیدی مراد لی ہے تو قضاء مان لی جائے گی اس لئے کہ حقیقت کلام کا ارادہ کیا۔
تشریح : چونکہ یوم کا ترجمہ دن کی سفیدی بھی ہے اسلئے ٫یوم اتزوجک ، سے دن کی سفیدی مراد لے تو قضا کے طور پر بھی اس کی بات مان لی جائے گی ، اور رات میں نکاح کرے گا تو طلاق نہیں ہو گی صرف دن میں نکاح کرے گا تو طلاق واقع ہو گی ۔
ترجمہ : ٣ لفظ ٫اللیل، صرف رات کی اندھیری کو شامل ہے ، اور لفظ النہار صرف دن کی سفیدی کو شامل ہے ، لغت یہی ہے ۔
تشریح : یہاں لفظ لیل ، اور لفظ نہار کی لغوی تحقیق بیان کر رہے ہیں ، کہ لیل صرف رات کے لئے آتا ہے ، اور نہار صرف دن کے لئے آتا ہے ۔ جبکہ یوم مطلق وقت ، اور دن کی سفیدی کے لئے مشترک ہے ۔ پس جس کا قرینہ ہو گا وہ معنی مراد لیا جائے گا ۔