Deobandi Books

اثمار الہدایہ شرح اردو ہدایہ جلد 4

400 - 465
(١٧٧٥)  ولو قال انت طالق الیوم غدا او غد الیوم فانہ یوخذ باول الوقتین الذی تفوہ بہ فیقع فی الاول فی الیوم وفی الثانی فی الغد )   ١  لانہ لما قال الیوم کان تنجیزاً و المنجز لا یحتمل الاضافة
  ٢   ولو قال غدا کان اضافة والمضاف لا یتنجز لما فیہ من ابطال الاضافة فلغا اللفظ الثانی فی الفصلین  (١٧٧٦) ولو قال انت طالق فی غد وقال نویت اٰخر النہار دین فی القضاء عند ابی حنیفة 

تشریح :  انت طالق غدا میں دن کے اول جز میں طلاق واقع ہو گی ، لیکن اگر دن کے آخر حصے کی نیت کی تو دیانت کے طور پر اس کی بات مان لی جائے گی ، کیونکہ اس کے کلام میں اس بات کا بھی احتمال ہے کہ اس سے دن کا کوئی بھی حصہ مراد لے ، کیونکہ پورا دن غد ہے ، لیکن چونکہ یہ ظاہر کے خلاف ہے اس لئے قضا کے طور پر تصدیق نہیں کی جائے گی ۔
ترجمہ :   (١٧٧٥)  اگر کہا انت طالق الیوم غدا ، یا کہا انت طالق غدا الیوم ، تو دو وقتوں میں سے جو پہلے بولا اس کو لیا جائے گا ۔اس لئے پہلی صورت میں پہلے دن میں واقع ہو گی ،اور دوسری صورت میں کل واقع ہو گی ۔
تشریح :   ایک ہی جملے میں دو وقت بیان کیا تو جو وقت پہلے بیان کیا اس میں طلاق واقع ہو گی، جیسے پہلے جملے میں کہا٫ انت طالق الیوم غدا، تو اس جملے میں الیوم پہلے ہے اور غدا بعد میں ہے تو پہلے کا اعتبار کرتے ہوئے آج طلاق واقع ہو گی ، اور٫ انت طالق غدا الیوم ،کہا تو اس میں غدا پہلے ہے اس لئے کل طلاق واقع ہو گی ۔
ترجمہ :   ١  اس لئے کہ جب الیوم کہا تو تنجیز ہوئی اور تنجیز اضافت کا احتمال نہیںرکھتی،
ترجمہ :   ٢   اور اگر کہا غدا تو اضافت ہو گی اوراضافت تنجیز نہیں ہو تی اس لئے کہ اس میں اضافت کو باطل کر نا ہے اس لئے دو نوں جملوں میں دوسرا لفظ لغو ہو جائے گا ۔
لغت:   تنجیز:  نجز سے مشتق ہے ،فوری طور پر ہو نا، آج ہو نا  ۔ اضافت : یہاں اس کا ترجمہ ہے کل پر معلق ہو نا ، اسی کو تعلیق کہتے ہیں ۔ یہ طے ہے کہ جملہ تنجیز ہوگا تو تعلیق نہیں ہو گا ، اور تعلیق ہوگا تو تنجیز نہیں ہو گا ۔
تشریح :  اوپر کے دو نوں جملوں میں دو وقت بیان کیا ہے ، ایک الیوم ، اور دوسرا غدا،، اور یوم ، تنجیز ہے اور غد تعلیق ہے پس اگر تنجیز کی رعایت کرتے ہیں تو تعلیق باطل ہو تی ہے اور تعلیق کی رعاہت کرتے ہیں تو تنجیز باطل ہو تی ہے ، اس لئے پہلے لفظ کی رعایت کی جائے ، اور جو لفظ پہلے آئے اسی کے مطابق طلاق واقع کی جائے ۔ اور بعد والے لفظ کو دو نوں جملوں میں باطل قرار دیا جائے ۔
 ترجمہ:  (١٧٧٦)   اگر کہا ٫انت طالق فی غد،  اور کہا کہ میں نے دن کے آخری حصے کی نیت کی ہے تو قضا کے اعتبار سے بھی مان لی جائے گی امام ابو حنیفہ  کے نزدیک ۔
 تشریح:  فی ،ظرف کے لئے آتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ دن کے کسی حصے میں طلاق واقع ہو ، اس لئے اگر کل کے آخری حصے 

Flag Counter