٣ وان رضیت احدیٰ الزوجات بترک قسمہا لصاحبتہا جاز لان سودة بنت زمعة رضی اللہ عنہا سألت رسول اللہ علیہ السلام ان یراجعہا وتجعل یوم نوبتہا لعائشة عنہا ٤ ولہا ان ترجع فی ذلک لانہا اسقطت حقا لم یجب بعد فلایسقط ۔
تشریح : ہم اوپر والی حدیث کا جواب یہ دیتے ہیں کہ حضور ۖ پر قرع ڈالنا واجب نہیں تھا یہ صرف بیویوں کی دلجوئی کے لئے تھا اس لئے قرع ڈالنا مستحب ہے ، اور اس کی وجہ یہ ہے کہ شوہر کے لئے جائز ہے کہ کسی بیوی کو بھی سفر میںساتھ نہ لیجائے تو اس کے لئے یہ بھی ہے کہ ایک کو ساتھ لیجائے ، اور جتنے دنوں تک ایک کو ساتھ لے گیا باری میں اس کا حساب نہیں ہو گا ، جب گھر آئے گی تو شروع سے سب کی باری برابر ہو گی ۔
ترجمہ : ٣ اگر راضی ہو جائے کوئی بیوی اپنی باری چھوڑنے پر اپنی سوکن کے لئے تو جائز ہے۔ اس لئے کہ حضرت سودہ بنت زمعہ نے حضور ۖ سے کہا تھاکہ اس سے رجعت کرلین اور اسکی باری حضرت عائشہ کے لئے کر دیں ۔
وجہ : (١) شوہر سے باری وصول کرنا اپنا حق ہے۔اس لئے اس کو دوسروں کے حوالے بھی کر سکتی ہے (٢)حدیث میں ہے کہ حضرت سودہ نے اپنی باری حضرت عائشہ کو سپرد کی تھی صاحب ہدایہ کی حدیث یہ ہے ۔عن عائشة ان سودة بنت زمعة وھبت یومھا لعائشة وکان النبی ۖ یقسم لعائشة بیومھا ویوم سودة ۔ (بخاری شریف ، باب المرأة تھب یومھا من زوجھا لضرتھا وکیف یقسم ذلک ص٧٨٥ نمبر ٥٢١٢ مسلم شریف ، باب جوازھبتھا نوبتھا لضرتھا ص ٤٧٣ نمبر ٣٦٢٩١٤٦٣) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اپنی باری سوکن کو دے سکتی ہے (٣) آیت میں اس کا اشارہ موجود ہے۔وان امرأة خافت من بعلھا نشوزا او اعراضا فلا جناح علیھما ان یصلحا بینھما صلحا والصلح خیر ۔ (آیت ١٢٨ سورة النساء ٤) اس آیت میں صلح کرنے سے باری ساقط کرنے کی طرف اشارہ ہے۔
ترجمہ : ٤ اور عورت کے لئے جائز ہے کہ باری کو واپس لے لے ، اس لئے کہ اس نے ایسا حق ساقط کیا تھا جو ابھی تک واجب نہیں ہوا تھا اس لئے ساقط نہیں ہو گا ۔
تشریح : اپنی باری ساقط کر نے کے بعد جب واپس لینا چاہے واپس لے سکتی ہے ۔ اس کی وجہ یہ فر ماتے ہیں کہ آیندہ کی باری ساقط کی ہے ، حالانکہ وہ ابھی تک واجب ہی نہیںہوئی ہے پس جو چیز ابھی تک واجب ہی نہیں ہوئی ہے اس کو ابھی کیسے ساقط کرے گی ، اس لئے آیندہ کی باری ساقط نہیں ہوئی۔
وجہ: (١) کیونکہ ہمیشہ کے لئے ساقط نہیں کی (٢) یہ ہبہ کی طرح ہے اور پہلے گزر چکا ہے کہ ہبہ دینے کے بعد واپس لے سکتا ہے اس لئے اپنی باری بھی واپس لے سکتی ہے (٣) اثر میں ہے حضرت علی کے لمبے قول کا ٹکڑا یہ ہے۔فماطابت بہ نفسھا فلا بأس