١ عندابی یوسف اعتبارابکفارة الیمین ٢ وعند محمد لا یجزیہ لان الصدقة تنبیٔ عن التملیک وہو المذکور
ترجمہ: ١ امام ابو یوسف کے نزدیک کفارہ یمین پر قیاس کرتے ہوئے
تشریح : اگر جنا یات میں صدقہ کر نا پسند کیا تو اس کی دو صورتیں ہیں ایک یہ ہے کہ ہر مسکین کو آدھا آدھا صاع گیہوں تقسیم کر دے ، اور دوسری صورت یہ ہے کہ صبح اور شام دو نوں وقت مسکین کو بھر پیٹ کھا نا پکا کر کھلا دے ۔ امام ابو یوسف کا یہی مسلک ہے ۔
وجہ : (١) آیت میں ہے کہ اہل کو جو درمیانہ کھا نا کھلاتے ہو وہ کھانا مسکین کو کھلا دو ۔ آیت یہ ہے ۔ اطعام عشرة مساکین من اوسط ما تطعمون اھلیکم ( آیت ٨٩، سورة المائدة ٥) اس آیت میں ہے کہ جو کھانا اپنے اہل و عیال کو کھلاتے ہو وہی کھانا مسکین کو کھلاؤ جس کا مطلب یہ ہوا کہ کھا نا کھلانا جائز ہے ، آدھا صاع تقسیم کر نا ضروری نہیں (٢) اس اثر میں بھی ہے ۔اخبرنی ابن طاؤس عن ابیہ انہ کان یقول اطعام یوم لیس أکلة و لکن یوما من أوسط ما یطعم أھلہ لکل مسکین ۔ ( مصنف عبد الرزاق ، باب اطعام عشرة مساکین ، ج ثامن ، ص ٤٤٠، نمبر ١٦٣٦٣) اس اثر میں ہے کہ ایک دو لقمہ کھلا نا کافی نہیں ہے بلکہ پورا دن کھلائے ، جس کا مطلب یہ ہے کہ صبح اور شام کھلائے ۔(٣) اس اثر میں ہے ۔عن ابراہیم قال اذا اردت ان تطعم فی کفارة الیمین فغداء و عشاء ( کتاب الاثار لامام محمد ، باب الایمان و الکفارات فیھا ، ص ١٥٧، نمبر ٧١١ ) اس اثر میںہے کہ کھا نا کھلانا ہو تو صبح اور شام کھلاؤ ۔
ترجمہ: ٢ اور امام محمد کے نزدیک کھا نا کھلانا کا فی نہیں ہے کیونکہ صدقہ کا مطلب ہے کہ مالک بناؤ اور حدیث میں اس کا ذکر ہے ۔
تشریح : امام محمد کا مسلک یہ ہے کہ ہر مسکین کو کھا نا کھلانا کافی نہیںہے ہر ایک کو آدھا آدھا صاع گیہوں دینا ضروری ہے ۔
وجہ : (١) اس کی وجہ یہ ہے کہ آیت میں ہے کہ صدقہ کرو ، اور صدقہ کر نے کا معنی یہ ہو تا ہے کہ اس کو مالک بنا دو ، آیت یہ ہے ۔ ففدیة من صیام او صدقة او نسک (آیت ١٩٦ سورة البقرة٢) اس حدیث میں ہے کہ آدھا آدھا صاع چھ مسکین پر تقسیم کرے۔ حدیث یہ ہے ۔ عن عبد اللہ بن معقل قال جلست الی کعب بن عجرة فسألتہ عن الفدیة ..... او اطعام ستة مساکین لکل مسکین نصف صاع(بخاری شریف ، باب الاطعام فی الفدیة نصف صاع س ٢٤٤ نمبر ١٨١٦ مسلم شریف ، باب جواز حلق الرأس للمحرم اذا کان بہ اذی ص ٣٨٢ نمبر ٢٨٨٣١٢٠١) اس حدیث میں ہے کہ چھ مسکین کو دو اور ہر مسکین کو آدھا آدھا صاع تقسیم کرو ۔