سے گائے قربانى کى (مسلم)
ف:۔ ىہ ضرور نہىں کہ اىک گائے سب بىبىوں کى طرف سے کى ہو بلکہ ممکن ہے کہ سات کے اندر اندر کى ہو اور اونٹ بکرى کثرت سے مِلتے ہوئے گائے کى قربانى فرمانا اگر اتفاقى طور پر نہ سمجھى جاوے تو ممکن ہے کہ ىہود جو بچھڑے کو پوجا کرتے تھے اس شرک کے مٹانے کے لئے آپ نے اس کا اہتمام فرماىا ہو، اور بعضى رواىتوں مىں جو گائے کے گوشت کا مرض (ىعنى مضر) ہونا آىا ہے وہ شرعى حکم نہىں ہے بطور پرہىز کے ہے جىسا کہ روح دہم نمبر9 مىں حضرت علىؓ کو کھجور کھانے سے ممانعت فرمانے کا مضمون گذر چکا ہے۔ چنانچہ حلىمى نے کہا ہے کہ اس کى وجہ ىہ ہے کہ حجاز خشک ملک ہے اور گائے کا گوشت بھى خشک ہے (مقاصد حسنہ فى علىکم وفى لحوم البقر) اور مقاصد والے نے کہا ہے کہ گوىا ىہ حجاز والوں کے ساتھ مخصوص ہے اور ىہ بھى کہا ہے کہ ىہ معنى پسند کئے گئے ہىں ىعنى سب علماء نے اس کو پسند کىا ہے۔
حضرت علىؓ کا حضور کى طرف سے قربانى کرنا
عن حنش، قال: رأيت عليا يضحي بكبشين فقلت له: ما هذا؟ فقال: «إن رسول الله صلى الله عليه وسلم أوصاني أن أضحي عنه فأنا أضحي عنه» رواه ابوداود والترمذي
حنش سے رواىت ہے کہ مَىں نے حضرت على کو دىکھا کہ دو دُنبے قربانى کئے اور فرماىا ان مىں اىک مىرى طرف سے ہے اور دوسرا رسول اﷲ کى طرف سے ہے۔ مَىں نے ان سے (اس کے متعلق) گفتگو کى انہوں نے فرماىا کہ حضور نے مجھ کو اس کا حکم دىا ہے مَىں اس کو کبھى نہ چھوڑوں گا (ابوداود و ترمذى)