واجب ہے اور اگر اتنا مال نہ ہو جس سے صدقۂ فطر واجب ہوتا ہے تو اس پر قربانى واجب نہىں، لىکن پھر بھى اگر کر دے تو باعثِ ثواب ہے۔
3: قربانى صرف اپنى طرف سے کرنا واجب ہے، اولاد کى طرف سے کرنا واجب نہىں ، بلکہ اگر نابالغ اولاد مالدار بھى ہو تب بھى اس کى طرف سے قربانى کرنا واجب نہىں نہ اپنے مال سے نہ اُس کے مال سے۔ اگر کسى نے نابالغ کى طرف سے قربانى کر دى تو نفل ہوگئى ،لىکن اپنے ہى مال سے کرے اس کے مال مىں سے ہرگز نہ کرے۔
4: مسافر پر قربانى واجب نہىں۔
5: کوئى شخص دسوىں ،گىارہوىں اور بارہوىں تارىخ کو سفر مىں تھا، پھر بارہوىں تارىخ کو سورج غروب ہونے سے پہلے گھر پہنچ گىا ىا پندرہ دن کہىں ٹھہرنے کى نىت کر لى تو اب قربانى کرنا واجب ہوگىا، اسى طرح اگر پہلے اتنا مال نہىں تھا جس سے قربانى واجب ہوتى ہے، پھر بارہوىں تارىخ کو سورج غروب ہونے سے پہلے کہىں سے مال مل گىا تو قربانى کرنا واجب ہے۔
قربانى کا وقت
6:ماہِ ذى الحجہ کى دسوىں تارىخ سے بارہوىں تارىخ کى شام تک قربانى کرنے کا وقت ہے جس دن چاہے قربانى کرے لىکن قربانى کا سب سے بہتر دن عىد کا دن ہے، پھر گىارہوىں تارىخ پھر بارہوىں تارىخ۔