نزول سکینہ |
ہم نوٹ : |
عرض مرتب ۱۹ صفر المظفر ۱۴۱۵ ھ مطابق ۲۹ جولائی ۱۹۹۴ء جمعہ کے اجتماع میں ساڑھے گیارہ بجے صبح مسجد اشرف گلشن اقبال کی محراب سے عارف باللہ حضرت مولانا ومرشد نا شاہ حکیم محمد اختر صاحب دامت برکاتہم نے ایک خاص مضمون بیان فرمایا جس میں حضرت والا نے اپنے دل نشین وجاں فزاانداز میں روح المعانی اور بیان القرآن کے حوالوں سے سکینہ کی تفسیر فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ سکینہ وہ نور ہے جو مومنین کا ملین کے قلوب پر نازل ہوتا ہے اور یہ نعمت کائنات میں ماسوائے مومنین کا ملین یعنی اولیائے اللہ کے کسی کو دستیاب نہیں کیوں کہ یہ مُنَزَّلْ مِنَ السَّمَاءِ ہے مُخْرَجْ مِنَ الْاَرْضِ نہیں ورنہ ہرغیر متقی بھی اس کو حاصل کرلیتا۔ لہٰذا پیش نظر وعظ میں حضرت والا نے سکینہ کی تعریف اور اس کی تفسیر وعلامات اور نور سکینہ کا محل نزول اور اس کے حصول وحفاظت کا طریقہ نہایت تفصیل کے ساتھ بیان فرمایا اور آیت شریفہ کے اگلے جز لِیَزۡدَادُوۡۤا اِیۡمَانًا مَّعَ اِیۡمَانِہِمۡ کی تفسیر اور اس بارے میں شرح بخاری فتح الباری کی تشریح سے ثابت فرمایا کہ یہ ازدیا دوایمان وہی چیز ہے جس کو صوفیا نسبت خاصہ سے تعبیر کرتے ہیں اور آخر میں حضرت والا نے مسلم شریف کی حدیث مبارکہ لَایَقْعُدُ قَوْمٌ یَّذْکُرُوْنَ اللہَ اِلَّا حَفَّتْہُمُ الْمَلَائِکَۃُ ...الخ 1؎کی نہایت عاشقانہ تشریح کے ساتھ ایک علم عظیم بیان فرمایا کہ اس آیت پاک اور حدیث مبارکہ کے امتزاج سے ثابت ہوا کہ ذکر اللہ ازدیاد ایمان یعنی حصول نسبت خاصہ کا ذریعہ ہے جس کو سن کر اہل علم حضرات پھڑک گئے اور فرمایا کہ ہم نے کسی کتاب میں یہ علم نہ دیکھا تھا ؎ میں ہی اس پر مرمٹا نا صح تو کیا بیجا کیا میں تو دیوانہ تھا دنیا بھر تو سودائی نہ تھی غرض یہ وعظ حضرت والا کے عالمانہ وعاشقانہ رنگ کا حسین امتزاج ہے بس کلام کو مختصر کرتا ہوں کیوں کہ مجھ جیسے ناقص وبے علم کی تعریف سے حضرت والا کے کمالات مستغنی ہیں ؎ _____________________________________________ 1 ؎لصحیح لمسلم:2/345، باب فضل الاجتماع علٰی تلاوۃ القرآن وعلی الذکر ،ایج ایم سعید