نزول سکینہ |
ہم نوٹ : |
|
کبھی طاعتوں کا سرور ہے کبھی اعترافِ قصور ہے ہے مَلک کو جس کی نہیں خبر وہ حضور میرا حضور ہے یعنی انسانوں میں جو اولیائے اللہ ہوتے ہیں ان کو اللہ تعالیٰ وہ قرب عطا کرتا ہے جس کو فرشتے بھی نہیں جانتے یعنی قربِ ندامت،اعترافِ قصور، خطا ہوگئی اب بیٹھے ہوئے رو رہے ہیں۔ عبادت کی، حج و عمرہ کیا، تہجد پڑھا،تلاوت کی تو شکر ادا کررہے ہیں کہ اے اللہ! آپ کا احسان ہے، ہمارا کمال نہیں ہے، آپ کی توفیق ہے، خطا ہوگئی تو رو رہے ہیں کہ اللہ میاں! آج تو مجھ سے خطا ہوگئی، میں نے آپ کو ناراض کردیا، مجھے معاف کردیجیے، اب زارو قطار رو رہے ہیں، آنسو تھمتے نہیں ہیں،یہاں تک کہ حق تعالیٰ پھر ان کے لیے انتظام فرماتے ہیں کہ کہیں میرا بندہ رو رو کے موت کی گود میں نہ چلا جائے، مر ہی نہ جائے۔ انعام اشکِ ندامت اس توبہ و ندامت کی برکت سے پھر اللہ تعالیٰ ان کے قلب پر سکینہ اور سکون نازل کرتا ہے تاکہ کہیں شدتِ غم سے میرے بندہ کی موت واقع نہ ہوجائے، میرا عاشق ندامت سے مر ہی نہ جائے، اتنی ندامت ہو کہ گناہ سے نفرت ہوجائے، اتنی ندامت نہ ہو کہ موت ہی واقع ہوجائے۔ اللہ تعالیٰ اپنے عاشقوں کی موت نہیں چاہتے، اپنے عاشقوں کی حیات پُرسکون اور دوسروں کی حیات کے لیے ان کو نمونہ اور ذریعہ بنانا چاہتے ہیں، اپنے عاشقوں کو ایسی حیات دیتے ہیں کہ لاکھوں انسان ان سے ولی اللہ بنتے ہیں، لہٰذا مولانا شاہ محمد احمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ؎ اب کہیں پہنچے نہ تجھ سے ان کو غم اے مرے اشکِ ندامت اب تو تھم کیا مطلب ہے اس شعر کا؟ اس شعر کو سمجھنے کے لیے لغت کافی نہیں ہے، ماحول صحبت کی ضرورت ہے۔ مطلب اس کا یہ ہے کہ اتنا زیادہ مت روؤ کہ بیمار پڑجاؤ اور بخار آجائے اور دین کا کام ہی ختم ہوجائے یا چیختے چیختے موت ہی واقع ہوجائے، اتنا رونے کا حکم نہیں ہے، اس سے