نزول سکینہ |
ہم نوٹ : |
|
شہوت کی پیاس بجھانا چاہتے ہو تو یہ بتاؤ کہ آبِ شور یعنی نمکین پانی پینے سے پیاس بڑھتی ہے یا بجھتی ہے؟ آہ یہ مثنوی کے علوم! فرماتے ہیں ؎ نیست آبِ شور درمان عطش نمکین پانی پیاس کا علاج نہیں ہے۔ اگر ان نمکینوں اور حسینوں کو چکھوگے تو پیاس بڑھ جائے گی، بے چین ہوجاؤگے ؎ گرچہ باشد در نوشتن شیرخش اگرچہ یہ پانی دیکھنے میں ٹھنڈا اور اچھا لگ رہا ہے لیکن جب پیوگے یعنی بدنگاہی کروگے،حرام لذت لوگے تو بے چینی بڑھ جائے گی،روح کا بلڈ پریشر ہائی ہوجائے گا۔ سلوک کا نقطۂ آغاز غیراللہ سے گریز ہے اسی لیے اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی سے ہمیں بتادیا کہ اِلَّااللہُ چاہتے ہو تو پہلے لَااِلٰہَ سے عمل شروع کرو۔ تمہارے سلوک کا نقطۂ آغاز، میرے راستہ کا نقطۂ آغاز یہ ہے کہ غیراللہ سے قلب کو چھڑاؤ، لَااِلٰہَ کہو۔ لَااِلٰہَ کی تکمیل تمہارے اِلَّااللہُ کا حصول کامل ہے۔ جب تک یہ غیراللہ دل میں گھسے رہیں گے اللہ نہیں ملے گا ؎ نکالو یاد حسینوں کی دل سے اے مجذوبؔ خدا کا گھر پئے عشقِ بتاں نہیں ہوتا بدنظری کے حرام ہونے کی ایک عجیب حکمت نظر بچاؤ،نظر میں نشہ ہے،شراب حرام ہے کیوں کہ اس سے عقل غائب ہوجاتی ہے،حسینوں کو دیکھنا حرام اس لیے ہے کہ ان کو دیکھنے سے ایک نشہ آتا ہے جس سے عقل ضایع ہوجاتی ہے، پھر نہ جنت یاد رہے گی، نہ اللہ یاد آئے گا، نہ شیخ یاد آئے گا، نہ خانقاہ یاد رہے گی، سوائے اس کے کہ گندے مقامات کی رغبت شدیدہ میں مبتلا ہوجاؤگے۔ اس لیے نظر کی حفاظت کیجیے، پھر مراقبہ کیجیے کہ ان حسینوں کے پاس کیا ہے؟ ان کی لذت کے مقامات