نزول سکینہ |
ہم نوٹ : |
|
نزولِ سکینہ کی دوسری علامت دوسری تفسیر ہے: وَبِہٖ یَثْبُتُ التَّوَجُّہُ اِلَی الْحَقِّ 7؎ اس نور کی خاصیت یہ ہے کہ جس دل پر اللہ سکینہ اُتارتا ہے، ہر لمحۂ حیات، ہر سانس وہ اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ رہتا ہے، ایک سانس کو بھی اگر غافل ہونا چاہے تو نہیں ہوسکتا ؎ بھلاتا ہوں پھر بھی وہ یاد آرہے ہیں وَبِہٖ یَثْبُتُ التَّوَجُّہُ اِلَی الْحَقِّ ، بِہٖ کی ضمیر نور کی طرف جارہی ہے یعنی بِبَرَکَۃِ ہٰذَا النُّوْرِ اس نور کی برکت سے ہر وقت اس کی توجہ حق تعالیٰ کی طرف قائم رہتی ہے اور ثبوت کے معنیٰ کیا ہیں؟ ثُبُوْتُ الشَّیْءِبَعْدَ تَحَرُّکِہٖ متحرک چیز میں سکون پیدا ہوجائے، اس کا نام ثبوت ہے۔ وَبِہٖ یَثْبُتُ التَّوَجُّہُ اِلَی الْحَقِّ حق تعالیٰ کی طرف اس کی توجہ ہر وقت رہتی ہے، ایک لمحہ بھی اپنے اللہ سے غافل نہیں ہوتا،یہی وہ مقام ہے جس کو نسبت کہا جاتا ہے، جب نسبت قائم ہوگئی تو اب خدا کو نہیں بھول سکتا، اب بھاگنا بھی چاہے تو نہیں بھاگ سکتا۔ نسبت پر حضرت مولانا شاہ محمد احمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا عجیب شعر ہے۔ کیسے معلوم ہو کہ یہ شخص ولی اللہ، صاحبِ نسبت ہوچکا۔ فرماتے ہیں ؎ نسبت اسی کا نام ہے نسبت اسی کا نام ان کی گلی سے آپ نکلنے نہ پائیے سمجھ لو وہ شخص صاحبِ نسبت ہوگیا کہ جو بھاگنا بھی چاہے تو اللہ سے نہ بھاگ سکے، ان کو بھلانا بھی چاہے تو بھلا نہ سکے، اس پر قادر ہی نہ ہو کہ ایک سانس اللہ کے بغیر جی سکے۔ تیسری علامت اب تیسری تفسیر سنیے۔ یہ علامات ہیں سکینہ کی _____________________________________________ 7 ؎روح المعانی:25/11، الفتح(4)، دار احیاء التراث، بیروت