نزول سکینہ |
ہم نوٹ : |
|
گڑگڑا کے جو مانگتا ہے جام ساقی دیتا ہے اس کو مے گلفام ناز و نخرے کرے جو مے آشام ساقی رکھتا ہے اس کو تشنہ کام ناز و نخرے اور تکبر کی راہ سے یہ نعمت عطا نہیں ہوتی،یہ تو گڑگڑانے سے ملتی ہے۔ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے اس نعمت کو ایمان والوں کے لیے خاص رکھا ہےاور اس نعمت کے بعد خود ایمان والوں کا درجہ بڑھ جاتا ہے،ایک تو ایمان والےوہ ہیں جو صرف صاحبِ ایمان ہیں،ان کا ایمان عقلی ہے، استدلالی ہے اور موروثی ہے کہ ابا مسلمان تھے لیکن اس نعمت کے بعد ایمان کس مقام پر پہنچتا ہے اور وہ مقام اولیائے صدیقین کا ہے جس کی تفسیر میں آج ان شاء اللہ بیان کروں گا۔ اس سے پہلے ذرا کچھ تمہید پیش کرتا ہوں کیوں کہ دانہ ڈالنے سے پہلے ہل جوتنا پڑتا ہے، ہمیں دلوں کی زمین پر ہل جوتنا ہے، ہلچل مچانا ہے۔ ہلچل کیا ہے؟ جہاں ہل چل جائے۔ لوگ کہتے ہیں کہ بھئی ہلچل مچ گئی، ہلچل کے معنیٰ ہیں کہ جس زمین پر ہل چل جائے، زمین کے ذرّے ذرّے بکھر جائیں، مٹی کے ذرّے ذرّے بکھرجائیں۔ بس یہی سمجھ لیجیے کہ دل میں پہلے ہلچل بچانا ہے، جب ہل چلے گا پھر بعد میں دانہ، پھر پانی، پھر کھاد اور پھر تمام اجزائے زراعت اور کھیتی کے ڈالے جاتے ہیں،یہ ایمان کی کھیتی ہے۔ اس لیے پہلے کچھ تمہید عرض کرتا ہوں اور وہ تمہید بھی بہت بڑے ولی اللہ کی ہے جن کو ساری اُمت نے ولی اللہ تسلیم کیا ہے یعنی مولانا جلال الدین رومی رحمۃ اللہ علیہ۔ قربِ عبادت اور قربِ ندامت فرماتے ہیں کہ اے خدا! دنیا میں ایک عجیب نعمت ہے جو آپ اپنے نادم گناہ گار بندوں کو عطا فرماتے ہیں، دو نعمتیں ہیں ایک قربِ عبادت ہے جو فرشتوں کو بھی اللہ نے دیا ہوا ہے، کوئی فرشتہ رکوع میں ہے تو رکوع ہی میں ہے، کوئی سجدہ میں ہے تو سجدہ ہی میں ہے، بعض عرشِ اعظم کے پائے پکڑے ہوئے اپنی تسبیح پڑھ رہے ہیں لیکن قربِ ندامت فرشتوں کو