نزول سکینہ |
ہم نوٹ : |
|
چاہیے، وہ تو کہے گا کہ میرے سینہ کے اندر تو خود پانی لبالب بہہ رہا ہے، دُور دُور تک میری ٹھنڈک جارہی ہے، میں اپنے اندر پانی کومحسوس کررہا ہوں، پارہا ہوں، مجھےدلیل کی کیا ضرورت ہے، جس دریا کے اندر پانی ہوتا ہے، دور دور تک اس کی ٹھنڈک جاتی ہے، ایک میل پہلے ہی سے ہواؤں کی ٹھنڈک بتادیتی ہے کہ آگے دریا قریب ہے۔ اسی طرح قلب میں پہلے ایمانِ عقلی و استدلالی ہوتا ہے۔عقل سے استدلال سے، دوسروں سے سن کر وہ اللہ پر ایمان لاتا ہے لیکن سکینہ کا نور عطا ہونے کے بعد اب وہ ایمان ایمانِ ذوقی حالی وجدانی سے تبدیل ہوجاتا ہے کہ دل میں وہ اللہ تعالیٰ کا قرب محسوس کرتا ہے، اللہ کو دل میں پاتا ہے۔ اس احسانی کیفیت کوصوفیا حضرات نسبت سےتعبیر کرتے ہیں۔ جب کوئی بندہ کسی بستی میں صاحبِ نسبت، اللہ والا ہوجاتا ہے تو اس کی ٹھنڈک دور دور تک جاتی ہے، دور دور اس کا فیض جاتا ہے، ہزاروں بندے اس کے فیض صحبت سے اللہ والے بن جاتے ہیں۔ آیت لِیَزۡدَادُوۡۤا اِیۡمَانًا مَّعَ اِیۡمَانِہِمۡ 10؎ میں صوفیا کی اصطلاح نسبتِ خاصہ کا ثبوت ہے۔ ذکر اللہ سے نزولِ سکینہ کی دلیل نقلی اور ایک علم عظیم اب یہ ایمانِ ذوقی، حالی، وجدانی یعنی نسبتِ خاصہ مع اللہ کیسے حاصل ہو اس کو بیان کرتا ہوں اور یہ ایک علم عظیم ہے جو حق تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے اختر کو بنگلہ دیش میں عطافرمایا۔مسلم شریف کی روایت ہےکہ لَایَقْعُدُ قَوْمٌ یَّذْکُرُوْنَ اللہَ اِلَّا حَفَّتْہُمُ الْمَلَائِکَۃُ 11؎ جب کوئی قوم اللہ تعالیٰ کے ذکر میں مشغول ہوتی ہے تو فرشتے اس کو گھیرلیتے ہیں۔ اس کا عاشقانہ ترجمہ ہے کہ ذاکرین کی فرشتوں سے ملاقات ہوتی ہے، اس طرح خاکی مخلوق کو نوری مخلوق کی مصاحبت نصیب ہوتی ہے اور اس صحبت کی برکت سے فرشتوں کے پاکیزہ اخلاق اور ان کا ذوقِ عبادت ان خاکی بندوں کے قلوب میں منتقل ہونے کی توقع ہے۔ ذکر کا دوسرا انعام ہے غَشِیَتْہُمُ الرَّحْمَۃُ اللہ کی رحمت ان کو ڈھانپ لیتی ہے۔ اس کا عاشقانہ ترجمہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اپنے آغوش میں لے کر ذاکرین کو پیار کرلیتی _____________________________________________ 10 ؎الفتح:4 11؎الصحیح لمسلم:345/2، باب فضل الاجتماع علٰی تلاوۃ القرآن وعلی الذکر ،ایج ایم سعید