Deobandi Books

نزول سکینہ

ہم نوٹ :

28 - 34
چاہیے، وہ تو کہے گا کہ میرے سینہ کے اندر تو خود پانی لبالب بہہ رہا ہے، دُور دُور تک میری ٹھنڈک جارہی ہے، میں اپنے اندر پانی کومحسوس کررہا ہوں، پارہا ہوں، مجھےدلیل کی کیا ضرورت ہے، جس دریا کے اندر پانی ہوتا ہے، دور دور تک اس کی ٹھنڈک جاتی ہے، ایک میل پہلے ہی سے ہواؤں کی ٹھنڈک بتادیتی ہے کہ آگے دریا قریب ہے۔ اسی طرح قلب میں پہلے ایمانِ عقلی و استدلالی ہوتا ہے۔عقل سے استدلال سے، دوسروں سے سن کر وہ اللہ پر ایمان لاتا ہے لیکن سکینہ کا نور عطا ہونے کے بعد اب وہ ایمان ایمانِ ذوقی حالی وجدانی سے تبدیل ہوجاتا ہے کہ دل میں وہ اللہ تعالیٰ کا قرب محسوس کرتا ہے، اللہ کو دل میں پاتا ہے۔ اس احسانی کیفیت کوصوفیا حضرات نسبت سےتعبیر کرتے ہیں۔ جب کوئی بندہ کسی بستی میں صاحبِ نسبت، اللہ والا ہوجاتا ہے تو اس کی ٹھنڈک دور دور تک جاتی ہے، دور دور اس کا فیض جاتا ہے، ہزاروں بندے اس کے فیض صحبت سے اللہ والے بن جاتے ہیں۔ آیت لِیَزۡدَادُوۡۤا اِیۡمَانًا مَّعَ اِیۡمَانِہِمۡ10؎ میں صوفیا  کی اصطلاح نسبتِ خاصہ کا ثبوت ہے۔
ذکر اللہ سے نزولِ سکینہ کی دلیل نقلی اور ایک علم عظیم
اب یہ ایمانِ ذوقی، حالی، وجدانی یعنی نسبتِ خاصہ مع اللہ کیسے حاصل ہو اس کو بیان کرتا ہوں اور یہ ایک علم عظیم ہے جو حق تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے اختر کو بنگلہ دیش میں عطافرمایا۔مسلم شریف کی روایت ہےکہ لَایَقْعُدُ قَوْمٌ یَّذْکُرُوْنَ اللہَ اِلَّا حَفَّتْہُمُ الْمَلَائِکَۃُ11؎ جب کوئی قوم اللہ تعالیٰ کے ذکر میں مشغول ہوتی ہے تو فرشتے اس کو گھیرلیتے ہیں۔ اس کا عاشقانہ ترجمہ ہے کہ ذاکرین کی فرشتوں سے ملاقات ہوتی ہے، اس طرح خاکی مخلوق کو نوری مخلوق کی مصاحبت نصیب ہوتی ہے اور اس صحبت کی برکت سے فرشتوں کے پاکیزہ اخلاق اور ان کا ذوقِ عبادت ان خاکی بندوں کے قلوب میں منتقل ہونے کی توقع ہے۔
ذکر کا دوسرا انعام ہے غَشِیَتْہُمُ الرَّحْمَۃُاللہ کی رحمت ان کو ڈھانپ لیتی ہے۔ اس کا عاشقانہ ترجمہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اپنے آغوش میں لے کر ذاکرین کو پیار کرلیتی 
_____________________________________________
10 ؎   الفتح:4
11؎    الصحیح لمسلم:345/2، باب فضل الاجتماع علٰی تلاوۃ القرآن وعلی الذکر ،ایج ایم سعید
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 عرض مرتب 6 1
3 نزولِ سکینہ 8 1
4 قربِ عبادت اور قربِ ندامت 9 1
5 تذکرہ حضرت مولانا شاہ محمد احمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ 10 1
6 غم دنیا سے ڈرنا خامی عشق کی دلیل ہے 11 1
7 اللہ کی محبت میں تڑپنے کا مطلب 12 1
8 رابطہ عبد و معبود 13 1
9 مرتبۂ روح میں عارفین کی پرواز 14 1
10 مرنے والوں پر مرنا انتہائی بے وقوفی ہے 15 1
11 نمکین پانی پیاس کا علاج نہیں 15 1
12 سلوک کا نقطۂ آغاز غیراللہ سے گریز ہے 16 1
13 بدنظری کے حرام ہونے کی ایک عجیب حکمت 16 1
14 اہل عقل کون لوگ ہیں؟ 17 1
15 فرشتوں کو قربِ ندامت حاصل نہیں 17 1
16 انعام اشکِ ندامت 18 1
17 گریۂ ندامت و کفارۂ معصیت پر نفس کی پریشانی 19 1
18 الہامِ فجور سے نورِ تقویٰ ہونے کی عجیب مثال 19 1
19 کثیر الشہوۃ مجاہدہ کی بدولت قوی النور ہوتا ہے 20 1
20 اولیائے اللہ کی باطنی لذتوں سے سلاطین دنیا بے خبر ہیں 21 1
21 سکینہ کیا ہے اور کہاں نازل ہوتا ہے؟ 22 1
22 نزولِ سکینہ کے موانع 22 1
23 سکینہ کی تین تفسیریں 22 1
26 پہلی تفسیر اور علامت 22 23
27 نورِ سکینہ کے حصول اور حفاظت کا طریقہ 23 23
28 نزولِ سکینہ کی دوسری علامت 24 23
29 تیسری علامت 24 23
30 نزولِ سکینہ ازدیادِ ایمان یعنی نسبتِ خاصہ کا ذریعہ 26 1
31 ایمانِ عقلی استدلالی موروثی و ایمانِ ذوقی حالی وجدانی کی تمثیل 27 1
32 ذکر اللہ سے نزولِ سکینہ کی دلیل نقلی اور ایک علم عظیم 28 1
Flag Counter