نزول سکینہ |
ہم نوٹ : |
تقاضوں کا تو ایک کلو نور روح میں پیدا ہوجائے گا، لہٰذا اب یہ تعویذ لینے کی ضرورت نہیں ہے کہ صاحب تقاضوں کا مٹیریل ہی ختم ہوجائے، کافور کی گولیاں کھلادو اور ’’کھچڑا‘‘کے وزن پر بنادو۔ ایسا خیال بھی نہ لائیے۔ اللہ کو یہ منظور ہوتا تو ہم کو یہ مٹیریل ہی نہ دیتے لہٰذا مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ؎ آفتابت بر حد ثہامی زند اے خدا! یہ آسمان کا سورج آپ کی مخلوق ہے۔ یہ تمام گندگی،نجاستوں اور گوبروں کو جنگل میں سکھاکر اوپلا بناتا ہے، نان بائی اس سے تندوری روٹی پکاتے ہیں اور زمین کے نیچے جو سیال، رقیق مادہ جاتا ہے وہ کھاد بن جاتا ہے جسے چنبیلی اور گلاب کے گملوں میں ڈالتے ہیں اور اس سے گلاب و چنبیلی اور خوشبودار پھول پیدا ہوتے ہیں۔ تو جب آپ نجس چیزوں سے خوشبودار چیز پیدا کرسکتے ہیں، جب جانورو ں کی نجاست پر آپ کا سورج اثر کرتا ہے تو ہم تو انسان ہیں، ہماری نجاستوں پر، گناہ کے خبیث مادوں پر آپ اپنی رحمت کے سورج کی شعاعیں ڈال دیجیے، جب دنیاوی سورج کا یہ حال ہے تو آپ کی رحمت کے سورج کا کیا عالم ہوگا ؎ چوں خبیثاں را چنیں خلعت دہی جب خبیث چیزوں کو، گوبروں کو اور جانوروں کی نجاستوں کو آپ یہ خلعتِ گل، خلعتِ چنبیلی، خلعتِ گلاب دیتے ہیں، لباس گلاب دیتے ہیں ؎ من چہ گویم طیبیں را چہ دہی تو میں نہیں کہہ سکتا کہ آپ اپنے پاک بندوں کو کیا دیتے ہیں۔ اولیائے اللہ کی باطنی لذتوں سے سلاطین دنیا بے خبر ہیں اولیائے اللہ کو کیا دیتے ہیں، کیسے اخلاق، کیسا درد بھرا دل، کیسے اشکِ ندامت اور اپنے قرب کی کیا کیا لذتوں سے آپ نوازتے ہیں کہ سارا عالَم اس سے آگاہ نہیں ہے۔ میں پھر یہی کہتا ہوں کہ اگر سلاطین کو پتا چل جائے تو اپنے تاجِ اولیائے اللہ کے قدموں میں ڈال دیں اور کہیں کہ ہمیں بھی وہ دردِدل وہ اللہ کی محبت سکھادیجیے جو آپ