نزول سکینہ |
ہم نوٹ : |
|
اللہ تعالیٰ خوش نہیں ہوتے، اتنا روؤ دل میں ندامت اتنی طاری ہو کہ آیندہ گناہ کرنے کی ہمت نہ ہو۔ گریۂ ندامت و کفارۂ معصیت پر نفس کی پریشانی نفس ڈر جائے کہ بھئی یہ تو بہت چلّاتا ہے، ہم کو بہت رُلاتا ہے اور چار چھ رکعات، آٹھ رکعات جرمانہ بھی ادا کرے، خطاؤں پر خیرات بھی کرے تاکہ نفس ڈر جائے کہ اتنا تو جیب سے پیسہ خرچ کرادیا اور اتنی نفلیں پڑھوائیں اور اتنا رُلایایہ تو مشکل سودا ہے بھائی! اس سےبہتر ہے کہ آیندہ گناہ ہی نہ کرو،یہ ظالم تو بلا میں مبتلا کردیتا ہے، میں نے تو حلوہ حرام کھایا، اس نے بلوہ حلال میں مبتلا کردیا، میں نے تو گناہ کا حلوہ حرام کھایا تھا مگر یہ سالک اور یہ اللہ والا ایسا ہے کہ مجھے اس نے ندامت اور عبادت کے بلوہ میں مبتلا کردیا،یہ تو مجھے بلا میں مبتلا کردیتا ہے،چائے وائے سب بند کردیتا ہے،کہتا ہےکہ تم نے خطا کی ہے، اب خوب روؤ، دس رکعات توبہ کی پڑھو ورنہ چائے بھی نہیں دوں گا، ایک قطرہ چائے حرام، ایک پیسہ بھی نہیں دوں گا تجھ کو اے نفس! کیوں کہ تو نے اللہ کی نافرمانی کی ہے۔ الہامِ فجور سے نورِ تقویٰ ہونے کی عجیب مثال مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ بعض لوگ اپنے گناہوں کے تقاضوں سے مایوس ہوجاتے ہیں۔ دیکھتے ہیں کہ ہر وقت گناہ کا تقاضا، ہر وقت گناہ کرنے کا خیال تو سمجھتے ہیں کہ جب اتنا خبیث مادہ اور میٹریل ہے ہمارا تو ہم کیسے اللہ والے بنیں گے؟ اس کا جواب مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ دیتے ہیں کہ ؎ آفتابت بر حد ثہا می زند اے خدا! تیرے آسمان کا آفتاب، مخلوقِ آفتاب، نجاستوں پر اپنا اثر اور فیض ڈالتا ہے، جنگلوں میں بیل جو گوبر کرتے ہیں، ہاتھی بھی گوبر کرتا ہے جس کی مقدار یعنی مٹیریل زیادہ ہوتا ہے، جتنی گوبر کی مقدار زیادہ ہوتی ہے اتنا ہی آپ کے آسمان کا آفتاب اس کو گرم کرکے اس کا کچھ حصہ زمین کے نیچے رقیق کھاد بنا دیتا ہے جس سے گلاب اور سوسن اور ریحان پیدا ہوتے ہیں اور کچھ حصہ اوپر خشک ہوجاتا ہے جس کو اوپلا اور کنڈا کہتے ہیں جو نان بائی لاکر تنور میں جلاتا