نزول سکینہ |
ہم نوٹ : |
|
اللہ تعالیٰ نے عطا نہیں فرمایا کیوں کہ ندامت تو جب ہو جب ان سے خطا ہو، اس مخلوق کو اللہ نے بے خطا بنایا ہے، لہٰذا اللہ تعالیٰ نے قربِ ندامت دینے کے لیے ایک مخلوق خطاکار پیدا کی جس کی فطرت میں خطاکاری ہے، کیوں کہ حق تعالیٰ کے مزاج میں عطا کاری ہے، اس لیے مزاج خطاکاری اور فطرت خطاکاری پر ایک مخلوق یعنی انسان کو پیدا فرمایا جو اپنی خطاکاری پر حق تعالیٰ کو گریہ و زاری پیش کرے اور اللہ تعالیٰ اس پر اپنی عطاکاری سے اس کو نوازدیں۔ فرشتوں کو یہ قرب ندامت حاصل نہیں ہے،یہ مستزاد نعمت اللہ تعالیٰ نے انسانوں میں جواولیائے اللہ ہوتے ہیں ان کے لیے خاص کی ہے۔ تذکرہ حضرت مولانا شاہ محمد احمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ آہ! مولانا شاہ محمد احمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے قربِ ندامت پر کیا عمدہ شعر فرمایا ہے۔ ان بزرگوں کا نام لیتے ہی میرے اوپر کیا نشہ آتا ہے کہ جن کے ساتھ تین سال کا زمانہ اخترنے گزارا ہے۔ الٰہ آباد میں طبیہ کالج میں پڑھنے کے زمانہ میں، وہی میری جوانی کا آغاز تھا، اسی وقت حق تعالیٰ نے اولیائے اللہ کی محبت دل میں ڈال دی اور ان کی صحبت نصیب فرمائی۔ یہاں ایسے لوگ بھی الٰہ آباد کے موجود ہیں جو مولانا کو خوب جانتے ہیں کہ کیسے تھے وہ۔ ایسے تھے کہ میرے شیخ شاہ عبدالغنی صاحب پھولپوری رحمۃ اللہ تعالیٰ اتنے بڑے خلیفہ، اجل خلیفہ حکیم الامت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے، جب ان کے گھر پر تشریف لے گئے اور پہلی ملاقات ہوئی اور میں لے گیا تھا، واسطہ میں تھا، ہمارے حضرت مولانا کو نہیں جانتے تھے کیوں کہ وہ پرتاب گڑھ کا معاملہ تھا، یہ اعظم گڑھ کا معاملہ تھا، اعظم گڑھ کی زمین کو پرتاب گڑھ کی سرحد سے ملایا اختر نے اور ایک ولی کو ایک ولی سے ملایا۔ حضرت سے تعریف کی کہ حضرت ہمارے ضلع کے دیہات میں ایک بزرگ ہیں جن کا جنگل بھی نور سے بھرا ہوا ہے، جس جنگل میں ستر ہزار مرتبہ اللہ اللہ کرتے تھے اور ان کی دعا بہت قبول ہوتی ہے اور ان کے کچھ واقعات سنائے تو حضرت نے فرمایا کہ بھئی! ہمیں بھی ان سے ملاؤ۔ تو میں اپنے شیخ و مرشد کو اعظم گڑھ سے پرتاب گڑھ لے آیا۔ پرتاب گڑھ اسٹیشن پر مولانا شاہ محمد احمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے کار کا انتظام کیا تھا۔ جب مولانا شاہ محمد احمد صاحب چائے کے لیے گھر کے اندر