نزول سکینہ |
ہم نوٹ : |
|
ہِیَ نُوْرٌ یَّسْتَقِرُّ فِی الْقَلْبِ 6؎ ہِیَ کی ضمیر سکینہ کی طرف جارہی ہے کیوں کہ سکینہ مؤنث ہے اور یَسْتَقِرُّ کی ضمیر نور کی طرف جارہی ہے، مضارع واحد غائب استعمال ہورہا ہے یعنی سکینہ ایک نور ہے جو مؤمن کے قلب میں ٹھہرجاتا ہے۔ اس کو حضرت مولانا شاہ محمد احمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ؎ شکر ہے دردِ دل مستقل ہوگیا اب تو شاید مرا دل بھی دل ہوگیا ایسا نہیں کہ مسجد میں تو وہ نور رہتا ہے اور بازاروں میں ختم ہوجاتا ہو۔ نہیں بلکہ بازاروں اور فیکٹریوں میں اور لندن، جرمن، جاپان میں بھی رہتا ہے۔ نور کا قلب میں اسقرار ہوتا ہے۔ یعنی دل میں ٹھہرجاتا ہے۔ روئے زمین پر کہیں بھی ہوں وہ نور ساتھ رہتا ہے۔ آہ! خواجہ عزیز الحسن مجذوبؔ رحمۃ اللہ علیہ کیا عجیب شعر فرماتے ہیں۔ کیا عمدہ شعر فرماتے ہیں ؎ پھرتا ہوں دل میں یار کو مہماں کیے ہوئے روئے زمیں کو کوچۂ جاناں کیے ہوئے پوری زمین اللہ کے عاشقوں کے لیے کوئے دلبر ہے اور دنیاوی عاشقوں کی کوئے دلبر کوئی گلی ہوتی ہے سڑی ہوئی۔ اللہ والا وہی ہے جس کا نور مستقر ہے، سارے عالم میں وہ نور ساتھ ہوتا ہے،یہ نہیں کہ جرمن جاپان کی لڑکیاں دیکھ کر وہاں ایمان ختم ہوگیا، تسبیح درجیب نظر برنمکین۔ تو پہلی تفسیر ہے کہ وہ نور دل میں ٹھہرجاتا ہے جس کی علامت یہ ہے کہ صاحبِ نور کسی حالت میں اللہ سے غافل نہیں ہوتا۔ اسی کا نام سکینہ ہے اور یہ نور کیسے ملتا ہے؟ نورِ سکینہ کے حصول اور حفاظت کا طریقہ اللہ کے ذکر اور تقویٰ سے ملتا ہے بشرطیکہ اس نور کو ضایع نہ کیا جاوے ورنہ ٹنکی پانی سے بھر دو لیکن ٹونٹی کھول دو تو سب پانی نکل جائے گا۔ اسی طرح ذکر سے قلب نور سے بھرگیا لیکن گناہ بھی کرلیا تو سارا نور ضایع ہوگیا لہٰذا ذکر کے ساتھ تقویٰ کا اہتمام بھی ضروری ہے۔ _____________________________________________ 5؎روح المعانی:25/11، الفتح(4) ، دار احیاء التراث، بیروت