نزول سکینہ |
ہم نوٹ : |
|
نت نیا روز مزہ چکھنے کا لپکا ان کو دربدر جھانکتے پھرتے ہیں انہیں عار نہیں بے حیا لوگ ایسے ہی رہتے ہیں۔ یہ اس زمانے کا شعر ہے جبکہ اختر بالغ بھی نہیں ہوا تھا، لیکن جب سورج نکلتا ہے تو آسمان پہلے ہی سے سرخ ہوجاتا ہے، میرے آسمان پر بھی سرخی آگئی تھی یعنی ہم ان سب باتوں کو خوب سمجھتے تھے لہٰذا یہ شعر یاد کرلیا کہ نظر کی حفاظت کے لیے مفید ہے۔تو یہ سکینہ کی تفسیر آپ لوگوں نے سن لی۔ اب میں دو تین منٹ میں لِیَزۡدَادُوۡۤا اِیۡمَانًا مَّعَ اِیۡمَانِہِمۡ کی تفسیر کرتا ہوں۔ نزولِ سکینہ ازدیادِ ایمان یعنی نسبتِ خاصہ کا ذریعہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ مؤمن کے دل پر سکینہ اس لیے نازل کرتا ہوں لِیَزۡدَادُوۡۤا اِیۡمَانًا مَّعَ اِیۡمَانِہِمۡ تاکہ ان کے سابق ایمان کے ساتھ ان کا ایمان اور زیادہ ہوجائے کیوں کہ ایمان تو پہلے بھی تھا لیکن معلوم ہوا کہ سکینہ کا نور دل میں آنے کے بعد ان کے موجودہ ایمان پرمستزاد ایمان ہوجاتا ہے۔اس کی تفسیر حکیم الامت مجدد الملت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ سکینہ کا نور عطا ہونے سے پہلے ان کا وہ سابق ایمان کیا تھا؟ اس کا نام تھا ایمانِ عقلی، استدلالی، موروثی یعنی ایمان عقل کی بنیاد پر تھا کہ عقل سے اللہ کو پہچانتا تھا اور استدلالی تھا کہ دلیلوں سے اللہ کو مانتا تھا، دلائل سے اللہ کے وجود پر استدلال کرتا تھا اور موروثی تھا کہ اماں ابامسلمان تھے لہٰذا ہم بھی مسلمان ہیں، گائے کا گوشت کھاکر مسلمان بنے ہوئے ہیں لیکن جب سکینہ کا نور عطا ہوتا ہے تو یہ ایمانِ عقلی استدلالی، موروثی، ایمانِ ذوقی حالی وجدانی سے تبدیل ہوجاتا ہے۔ ایمانِ ذوقی کیا ہے؟ یعنی دل میں مزہ چکھ لیتا ہے کہ میرا اللہ کیسا ہے، دل مزہ چکھنے لگتا ہے، اللہ کے قرب کی لذت کو دل چکھ لیتا ہے۔ ذوق معنیٰ چکھنے کے ہیں اور ایمان حالی یہ ہے کہ ایمان دل میں اُترجاتا ہے، حَالٌّ لام مشدد ہے معنیٰ اُترنے کے ہیں۔ اللہ کو پہچاننے کے لیے اب اس کو کسی استدلال کی ضرورت نہیں رہتی بلکہ ایمان دل میں حال ہوجاتا ہے، دل میں وہ اللہ کو محسوس کرنے لگتا ہے اور ایمان وجدانی نصیب ہوتا ہے، وجدان معنیٰ پاجانا یعنی دل میں اللہ کو پاجاتا ہے، پھر عالم