نزول سکینہ |
ہم نوٹ : |
|
ہے جس طرح غلبۂ رحمت سے ماں بچہ کو سینہ سے چپکاکر اپنے دونوں ہاتھوں سے اسے ڈھانپ لیتی ہے، جب اور زیادہ رحمت و شفقت جوش کرتی ہے تو اپنا سر اور گردن بچہ پر رکھ دیتی ہے، جب اور زیادہ پیار آتا ہے تو اپنے دوپٹہ سے اس کو بالکل ڈھانپ کر بچہ کا پیار لیتی ہے اور اس وقت وہ غلبۂ رحمتِ مادر کا مجسمہ ہوتی ہے۔ پس غَشِیَتْہُمُ الرَّحْمَۃُ کے ترجمہ کی تعبیر عاشقانہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اہل ذکر کو پیار کرتے ہوئے اپنی آغوش میں ڈھانپ لیتی ہےاور تیسرا انعام ہے نَزَلَتْ عَلَیْہِمُ السَّکِیْنَۃُ کہ ان پر سکینہ نازل ہوتا ہے۔یہ وہی سکینہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بیان فرمایا: ہُوَ الَّذِیۡۤ اَنۡزَلَ السَّکِیۡنَۃَ فِیۡ قُلُوۡبِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ اور جس کی تفسیر ابھی میں نے آپ سے بیان کی اور یہ کہ سکینہ کیوں نازل کیا؟ فرماتے ہیں: لِیَزۡدَادُوۡۤا اِیۡمَانًا مَّعَ اِیۡمَانِہِمۡ ؕ 12؎ تاکہ ان کے پہلے ایمان کے ساتھ ان کا ایمان اور زیادہ ہوجائے۔ پس اس آیتِ شریفہ اور حدیثِ مبارک کو ملاکر جو ایک علمِ عظیم اللہ تعالیٰ نے عطا فرمایا وہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ذکر پر نزولِ سکینہ منصوص بالحدیث ہے اور سکینہ پر ازدیاد ایمان منصوص بالقرآن ہے۔ معلوم ہوا کہ ذکر کے لیے سکینہ لازم ہے اور سکینہ کے لیے زیادتِ ایمان لازم ہے۔ پس ذکر اللہ ازدیادِ ایمان، ترقئ ایمان یعنی حصولِ نسبتِ خاصہ مع اللہ کا ذریعہ ہے۔ وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ _____________________________________________ 12 ؎الفتح:4