آناں کہ خاک را بنظر کیمیا کنند
آیا بود کہ گوشۂ چشمے بما کنند
اے میرے شیخ! آپ اس درجہ کے ولی اللہ ہیں جو مٹی کو چھولیں تو مٹی سونا بن جائے، جو مٹی کو ایک نظر سے سونا کردیتے ہیں، لیکن سونا بننے کے لیے آگ میں تپنا پڑتا ہے اور مجاہدہ کرنا پڑتا ہے، بڑے غم اُٹھانے کے بعد یہ مقام ملتا ہے، یہ مقام خونِ آرزو سے ملتا ہے۔ بڑے بڑے، موٹے موٹے جسم والے خونِ آرزو کے نام سے کانپتے ہیں اور دبلے پتلے جسم والے پر اگر اللہ کا فضل ہو جائے تو وہ اپنی آرزوؤں کا خون کرلیتا ہے،یعنی حرام آرزوؤں کو کچلنے کا غم برداشت کرلیتا ہے اور بعض ایسے ایسے تگڑے جو تگڑوں کو بھی گرادیں خونِ آرزو کرنے میں لومڑی بنے ہوئے ہیں۔ رَوْغَانَ الثَّعَالِبْ9؎ لومڑیانہ چال چلتے ہیں۔اللہ کے نام پر کہتا ہوں کہ لومڑی مت بنیے، نفس پر شیرانہ حملے کیجیے، اسی لیے حافظ شیرازی نے اپنے شیخ سے کہا تھا؎
آناں کہ خاک را بنظر کیمیا کنند
آیا بود کہ گوشۂ چشمے بما کنند
اے میرے شیخ! آپ کی وہ نظر جو مٹی کو سونا کردیتی ہے، کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ آپ وہ نظر مجھ پر ڈال دیں؟ تو حضرت نجم الدین کبریٰ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا؎
نظر کردم نظر کردم نظر کردم
ہم نے آپ کے اوپر نظر تو کردی، لیکن ایک ہی نظر سے کام نہیں بنتا، ایک زمانہ شیخ کی صحبت میں رہنا پڑتا ہے تب کہیں جاکر کام بنتا ہے۔ حافظ شیرازی نے اپنے شیخ حضرت نجم الدین کبریٰ رحمۃ اللہ علیہ کے دروازے پر اپنے کو مٹی بنادیا، اپنے نفس کو مٹادیا، ایک زمانہ شیخ کے ساتھ رہے تب اللہ نے انہیں اپنی نسبت عطا فرمائی۔
اگر مرید کی طلب صادق ہو، پیاس سچی ہو تو اللہ والوں کا دل خود آپ کی طرف مائل ہوجائے گا۔ شیخ آپ کے لیے رو رو کر سجدہ گاہ اپنے آنسوؤں سے بھردے گا؎
_____________________________________________
9؎ روح المعانی:120/24، سورۃ فصلت (30)،داراحیا ٔالتراث، بیروت