خوشی پر ان کی جینا اور مرنا ہی محبت ہے
نہ کچھ پروائے بدنامی نہ کچھ پروائے عالَم ہے
آپ بتاؤ محبت کے دو حق ہیں یا نہیں؟ محبوب خوش ہوجائے یہ ایک حق ہے اور محبوب ناخوش نہ ہو یہ دوسرا حق ہے۔ جو ظالم اللہ کو خوش کرنے کا اہتمام کرے اور ناخوش نہ کرنے کا اہتمام نہ کرے تو یہ دعوائے محبت میں ابھی خام ہے۔ قرآنِ پاک کی اس آیت سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ اصلی سالک، اللہ کا اصلی عاشق وہی ہے جو اللہ کی خوشی کے اعمال کرتا ہے اور اللہ کو ناراض کرنے والے اعمال سے یعنی گناہوں سے بچنے میں، بدنظری سے بچنے میں جان کی بازی لگادیتا ہے؎
نہ دیکھیں گے نہ دیکھیں گے انہیں ہر گز نہ دیکھیں گے
کہ جن کو دیکھنے سے رب مرا ناراض ہوتا ہے
اور اگر کسی گناہ میں مزہ آئے تو میرا دوسرا شعر پڑھ لو؎
ہم ایسی لذتوں کو قابلِ لعنت سمجھتے ہیں
کہ جن سے رب مرا اے دوستو ناراض ہوتا ہے
بس ہمت سے کام کرلو تو ان شاء اللہ تعالیٰ گناہوں کے خس و خاشاک جلتے جائیں گے اور اللہ کا نام لینے سے رنگِ گلشنِ محبت نکھرتا جائے گا۔ پھر جب اللہ تعالیٰ کا قربِ خاص ملے گا تو واللہ! اخترقسم کھاکر کہتا ہے کہ یہ ساری کائنات تمہاری نگاہوں سے گر جائے گی، تم جو ان بدبودار مقامات کے چکروں میں پڑے ہوئے ہو سب بھول جاؤگے، تم چاہوگے بھی تو تمہیں گھن آئے گی، تم خدا کو بھول کر گناہ کرنا بھی چاہوگے تو خدا کی یاد غالب رہے گی اور گناہ نہ کرسکوگے؎
بھلاتا ہوں پھر بھی وہ یاد آرہے ہیں
لیکن جب خالص قرب کی لذت ملتی ہے تب کہیں جاکر گناہ چھوٹتے ہیں، گناہ ایسے نہیں چھوٹتے ؎
نعم البدل کو دیکھ کے توبہ کرے ہے میرؔ
تو جب حضرت نجم الدین کبریٰ رحمۃ اللہ علیہ جنگل میں گئے اور حافظ شیرازی کی نظر شیخ کی نظر سے ٹکرائی، تو حافظ شیرازی نے ان سے عرض کیا؎