ملفوظات حکیم الامت جلد 27 - 28 - یونیکوڈ |
دعا کے امر میں اہتمام اور حکماء کی ایک بے عقلی ! یہ ایک تمہید تھی مضمون دعا کی اب آیت کا مضمون سنئے اللہ تعالیٰ جل جلالہ نے اس آیت میں بڑے اہتمام سے دعا کا مضمون بیاان فرمایا ہے چنانچہ شروع میں یہ تصریح فرمائی کہ وقال ربکم حالانکہ پہلے سے معلوم تھا کہ یہ کلام اللہ تعالیٰ کا ہے مگر پھر اس کو لئے ظاہر فرمادیا کہ اس کی تاثیر نفس میں قوی ہو جائے اور مضمون مابعد کی وقعت دلوں میں زیادہ ہو پھر لفظ ربکم ارشاد فرمایا اس میں بوجہ اظہار ربویت گو یا اشارہ ہے دعا کے قبول کر لینے کا اس طور پر پر چونکہ ہم ہمیشہ سے تمہاری پروش کرتے آئے ہیں حتیٰ کہ بدوں تمہاری درخوست کے بھی کی ہے تو کیا تمہاری عرض کو درخوست کرنے پر بھی قبول نہ کریں گے ؎ مانبودیم و تقاضا مانبود لطف تو ناگفتہ مامے شنود آیت اذا نشاء کم من لارض واذا نتم اجنۃ فی بطون امھاتکم الخ میں اس ترتیب بے درخواست کا ذکر فرمایا ہے اس کے بعد پیدائش کے بعد کی حالت قابل غور ہے کہ یہ حالت ایسی تھی کہ کسی قسم کی تمیز اور شعور اس وقت تک نہ ہوا تھ اس حالت میں اگر تمام دنیا کے حکماء سقراط بقراط وغیرہ اکٹھا ہوکر صرف اتنی ہی تدبیر کرنا چاہیں کہ بچہ دودھ پینا سیکھ جائے تو ہرگز وہ قیامت تک اس پر قادر نہیں ہوسکتے - یہ اسی قادر ذو الجلال کی حکمت اور اس کی رحمت اور عنیت ہے کہ اس نے بچے کو دودھ چوسنا سکھایا - حکماء کہیں گے کہ یہ خود طبیعت کا فعل ہے مگر جب کہ خود وہ طبیعت ہی کو بے شعور مان چکے ہیں تو ایسے پر حکمت کاموں کی اس کی طرف منسوب کرنا بے شعوری نہیں تو اور کیا ہے - تیسرا اہتمام ربکم کی اضافت ہے گویا فرماتے ہیں کہ ہم تمہارے ہی ہیں تم ہم سے مانگو اور اسی کی نظیر دوسری آیت میں آضفت ہے - ولو یؤاخذ اللہ الناس الی قولہ بعبادہ بصیرا حالانکہ یہاں عباد ماخوذیں کا ذکر ہے - مگر ان کو بھی اپنی طرف مضاعف فرماتے ہیں - سبحان اللہ کیا رحمت ہے - آیت ولو یؤ خذ اللہ الناس کے متعلق ایک عجیب تحقیق اس آیت کے متعلق ایک فائدہ علمیہ تفسیر یہ سمجھنے کے قابل ہے کہ ادمیوں کے