ملفوظات حکیم الامت جلد 27 - 28 - یونیکوڈ |
ہے اللہ میاں ملیں پھر کیا حقیقت ہے کسی چیز کی مال و دولت کے مقابلہ میں کیا اللہ میاں کی کچھ وقعت نہیں سمجھتے ہو - حضرت اللہ میاں کی رضا وہ چیز ہے کہ جس کی نسبت ایک بزرگ کہتے ہیں ع تو بماں اے آنکہ جز تو پاک نیست ( تو ہی دل میں رہ اے وہ ذات کہ جس کے سوال کوئی پاک ہی نہیں ) دنیا کے حکام کی صرف خوشنودی کے واسطے کتنے کتنے سفر اور کیا کیا کچھ خرچ کرنا پڑتا ہے اور پھر ان کی خوشنودی دیر پا نہیں ذرا سی بات پر بگڑ گئے اور اللہ میاں فرماتے ہیں کہ ہم شکور / 1 ہیں - خیال کیجئے اس لفظ کو - ایک بادشاہ کے سامنے کوئی چیز لے جائے اور وہ اس کی نسبت منظوری وعدم منظوری کچھ ظاہر نہ کرے مگر اس میں کوئی عیب نہ نکالے اور خازن /2 کو حکم دے دے کہ رکھ لو تو لے جانے والے دماغ آسمان پر پہنچ جاویں گے اور سناتا پھرے گا کہ بادشاہ نے ہمارا ہدیہ رکھ لیا اور اللہ میاں کے یہاں ہم لوگ اپنے اعمال لے جاتے ہیں اور ذرا ان اعمال کو بھی دیکھ لیجئے کہ وہ قابل ہیں - ہماری نماز کی مثال ایک نماز ہی کو لے لیجئے اس وقت نظیر کے واسطے - کھڑے ہوتے ہیں اللہ میاں سے باتیں کرنے کو اور کرتے ہیں کس سے گاؤخر / 3 سے یایوں مثال دیجئے - کہ ایک بادشاہ نے محض اپنی عنایت سے اپنے غلام کو دربار میں حاضری کی اجازت دی بلکہ یوں کہیئے کہ زبردستی طلب کیا ( ہم ایسے بھلے مانس تو کا ہے کوہیں کہ حاضری کی اجازت سے ہی دربار میں پہنچنے کو غنیمت سمجھیں ) زبردستی بلائے ہوئے بلکہ پابہ زنجیر ہو کر دربار میں پہمچے اور کام ہم سے کیا ہے کہ بادشاہ کو ان پر رحم آیا ہے اور چاہتا ہے کہ اس نے دربار میں کچھ گفتگو کر لے کہ درباریوں اور تمام رعایا مین ان کی عزت ہوجائے اپنا کچھ نفع مقصود نہیں من نکرد خلق تا سودے کنم بلکہ تابر بندگان جو دے کنم ہائے من نکردم خلق تا سودے کنم بلکہ تابر بندگان جو دے کنم ( میں نے مخلوق کو اس لئے نہیں پیدا کیا کہ اپنا کوئی فائدہ کروں بلکہ اس واسطے کہ بندوں پر سخاوت کروں ) ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ / 1 قد رداں / 2 خزانچی / 3 گائے گدھا سے کہ ان کا خیال آرہا ہے -