ملفوظات حکیم الامت جلد 27 - 28 - یونیکوڈ |
اعمال کی دو قسمیں ہیں ظاہری اور باطنی ظاہری تو روزہ نماز حج زکٰوۃ وغیرہ اور باطنی انس رضا شوق صبر قناعت وغیرہا ہیں - اور ان کے مقابلہ میں بد اخلاقیاں غضب حقد تکبر بے صبری حرص ہیں - یہی وہ چیزیں کہ جو مشائخ/ 1 کے یہاں ملتی ہیں - اساتذہ کے یہاں تو ظاہر درست ہوتا ہے اور مشائخ کے یہاں یہ اخلاق درست ہوتے ہیں - اور اسی کا نام بزرگی ہے - آج کل تو درویشی اور بزرگی کشف و کرامت کو جانتے ہیں - مجھ کو ایک شیخ صاحب کے ارشاد پر تعجب ہوا کہ انہوں نے ایک شخص سے کہا کہ میاں تم ذکر و شغل کرتے ہو کچھ نظر بھی آتا ہے - انہوں نے کہا کہ مجھے تو کچھ بھی نظر نہیں آتا - تو ہنس کر فرمایا کہ بھائی ثواب جمع کئے جاؤ - آہ افسوس ہے کہ ان شیخ نے ثواب کی کچھ بھی قدر نہ کی - مییں تو اسی دن سے ان کی شخصیت / 2 سے بھی بے اعتقد ہوگیا - جو خدا تعالیٰ کی رضا کو چھوڑ کر کشف کو ڈھونڈے اس کی مثال ایسی ہے کہ جیسے وزارت کو چھوڑ کر گھاس کھودنے لگے - اس لئے کہ کشف کا حاصل بعج غیر معلومہ / 3 غیر مقصود اشیا کا معلوم ہو جانا ہے سو یہ کوئی کمال نہیں ہے کمال یہ ہے کہ ظاہر اور باطن موافق شریعت کے ہو - پس / 4 ایسے شخص کے لئے میں دعویٰ کر کے کہتا ہوں کہ اس کو حیات طیبہ نصیب ہوگی اور کسی قسم کی پریشانی اس کو نہ ہوگی - حضرات اہل اللہ کو مصائب میں بھی پریشانہ نہیں ہوتی بلکہ اور لطف آتا ہے اگر کوئی کہے کہ ہم تو بچشم خود دیکھتے ہیں اور سنتے آئے ہیں کہ اکثر اولیاء اللہ اور بزرگان دین تکالیف میں مبتلا ہوتے ہیں پھر مزہ دار زندگی کہاں ہوئی - میں کہتا ہوں کہ بے شک مسلم ہے کہ ان حضرات کو بلا اور مصائب کا سامنا رہتا ہے بلکہ اوروں سے زیادہ لیکن ان کو ان مصائب میں بھی مزہ آتا ہے - اور جس کا نام پریشانی ہے وہ نہیں ہوتی - اس کی ایسی مثال ہے کہ ایک شخص کسی پر عاشق ہوجائے اور محبوب اس سے مدتوں سے نہ ملا ہو اور وہ اس ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ / 1 سچے پیروں کی - / 2 پیری / 3 جو چیزیں مطلوب و مقصود نہیں اور معلوم نہ تھیں ان کا معلوم ہونا - / 4 جو ظاہر و باطن کا جامع ہو -