ملفوظات حکیم الامت جلد 27 - 28 - یونیکوڈ |
نیکی پر چنانچہ فرعون کو چار برس مہلت دی گئی اور حضرت موسی کو چالیس سال تک منتظر رکھا گیا اور جب یہ ہے تو اگر کبھی جرم کی فورا سزا نہ ملی تو اس کی نسبت یہ خیال نہ کرنا چاہیے کہ اس جرم سے خدا تعالی ناخوش نہیں ہوئے یا یہ جرم قابل سزا و گرفت نہ تھا یا ہم کو معاف کر دیا گیا ۔ مصیبت کے وقت پہلے گناہوں کو بھول جانا اور نئے گناہ کی سوچ میں پڑ جانا اور یادنہ آنے پر مصیبت سے تعجب کرنا لوگ اس غلطی میں مبتلا ہونے کی وجہ سے جب کسی مصیبت میں مبتلا ہوتے ہیں تو ہمیشہ نئے گناہ کو دیکھا کرتے ہیں اور جب کوئی نیا گناہ نظر نہیں آتا تو اپنی مصیبت پر تعجب کرتے ہیں اور گویا نعوذ باللہ خدا تعالی کی طرف ظلم کی نسبت کر کے یہ کہتے ہیں کہ کر تو ڈر نہ کر تو ڈر ۔ صاحبو ! کسی مسلمان کے منہ سے اس جملہ کا نکلنا سخت حیرت ہے کیا کسی کے نزدیک خدا تعالی کی سلطنت اودھ کے نوابوں کی سلطنت ہے جس میں کوئی ضابطہ ہی نہیں جب جس طرح جی چاہا کر لیا خیر یہ جملہ معترضہ تھا مقصود یہ ہے کہ دنیا کے خطرات کو تو یہاں تک مہتم بالشان بنایا کہ کچھ نہ کر کے بھی ڈرتے ہیں اور آخرت کے بارے میں اس قدر غفلت ایسی بے پرواہی کہ آئے دن سینکڑوں خرافات میں مبتلا ہیں ۔ ہزاروں گناہوں کے بار میں دبے جاتے ہیں لیکن ذرا بھی پروا نہیں کیا یہ مرض نہیں ہے اور اگر ہے تو کیا اس کی تدبیر ضروری نہیں ۔ صاحبو ! یہ یاد رہے کہ جس قدر اس کی جانب سے غفلت ہو گی تدبیر دشوار ہوتی جائے گی اور صاحبو ! ہماری وہ حالت ہے کہ تن (1) ہمہ داغ داغ شدپنبہ کجا کجا نہم دیندار بھی گناہوں کے اصلی معالجہ میں بے پروائی کرتے ہیں دوسرا مرض جو دینداروں میں زیادہ ہے یہ ہے کہ جب کبھی ان کی حالت زار ان کو یاد ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ (1) سارا ہی بدن داغ داغ ہو گیا کہاں کہاں پھاہا رکھوں ۔